ایک ہاتھ سے چھوٹے بچوں کی گالوں کو دبایا جا رہا ہے جبکہ دوسرے ہاتھ سے بچے کے منہ میں ڈراپر کی مدد سے قطرے ڈالے جا رہے ہیں (© Thoko Chikondi/AP)
20 مارچ 2022 کو لیلونگوے، ملاوی میں 'ملاوی میں پولیو کے حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہم کے آغاز کے موقع پر ایک بچے کو پولیو کے قطرے پلائے جا رہے ہیں۔ (© Thoko Chikondi/AP)

کووڈ-19 عالمی وبا کے خاتمے کے سلسلے میں کی جانے والیں امریکی سرمایہ کاریاں پوری دنیا میں معمول کے حفاظتی ٹیکوں اور صحت عامہ کی دیگر سہولتوں کو پہلے سے زیادہ قابل رسا بنا رہی ہیں۔

ڈاکٹر فولاکا اولینکا امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کے عالمی حفاظتی ٹیکوں کے شعبے کی تکنیکی سربراہ ہیں۔ انہوں نے 27 اپریل کو بچپنے میں لگنے والے حفاظتی ٹیکوں میں اضافہ کرنے کے موضوع پر ہونے والے ایک مباحثے میں کہا کہ کووڈ-19 وبا کی وجہ سے بجپن میں لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں پر توجہ میں کمی واقع آئی۔

یونیسیف کے مطابق 2019 اور 2021 کے درمیان پوری دنیا میں 67 ملین بچوں کو ویکسین سے روکی جا سکنے والی خناق اور خسرے جیسی بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکے نہ لگ سکے۔ اس کی وجہ صحت کہ سہولتوں پر کووڈ-19 کی وجہ سے پڑنے والا اضافی بوجھ، کلینکلوں کی بندش اور طبی سامانی کی سپلائی میں پیش آنے والیں مشکلات تھیں۔ صحت کے عالمی ادارے نے اپریل 2023 میں ایک منصوبہ شروع کیا جس کا مقصد وبا کے دوران بچوں کو جو حفاظتی ٹیکے نہ لگائے جا سکے اُن کو لگانے میں مدد کرنا تھا۔

اب امریکی حکومت، نجی شعبہ اور دیگر شراکت دار مل کر دنیا کے ممالک کی ویکسین تک رسائی کو بڑہانے اور اس کے استعمال میں مدد کرنے کے لیے صحت عامہ کے شعبے میں کووڈ-19 وبا کے دوران ہونے والی طبی پیشرفتوں کو استعمال میں لا رہے ہیں۔ جہاں ایک طرف تیزی سے کووڈ-19 کے خلاف ویکسینیں تیار کرنے والی ایک امریکی کمپنی کئی ایک بیماریوں کا علاج کرنے کے لیے ٹکنالوجی افریقہ لا رہی ہے وہیں امریکی حکومت ویکسینوں کی فراہمی کو بہتر بنانے اور اعتماد بڑہانے کے لیے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔

اولینکا کہتی ہیں کہ کووڈ-19 کے خلاف ردعمل کے دوران حاصل ہونے والے تجربات کو معمول کے حفاظتی ٹیکوں  کا حصہ بنانے سے “حفاظتی ٹیکوں کے ایک نئے دور” کا آغاز ہونے جا رہا ہے۔

ماسک پہنے ایک آدمی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سے باتیں کر رہا ہے جبکہ دیگر لوگ انہیں دیکھ رہے ہیں (State Dept./Ron Przysucha)
20 نومبر 2021 کو وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن سینی گال میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ کا دورہ کر رہے ہیں۔ (State Dept./Ron Przysucha)

ویکسینیں تیار کرنا

2021 میں افریقی یونین نے 2040 تک افریقہ کی ویکسین کی صنعت کو اپنی مجموعی ضروریات کی 60 فیصد خوراکیں افریقہ کے اندر تیار کرنے  کی صلاحیت پیدا کرنے کا ہدف مقرر کیا۔ 26 اپریل کو ایک مضمون میں بیماریوں کی روک تھام اور اُن پر قابو پانے کے مراکز یعنی سی ڈی سی کے افریقہ کے ڈائریکٹر جنرل جین کیسیا نے کہا کہ افریقہ کی ویکسین کی پیداوار میں اضافہ پورے براعظم میں صحت عامہ اور معاشی ترقی کے حوالے سے بہت زیادہ  اہمیت کا حامل  ہے۔

کیسیا نے کہا کہ “افریقہ کے لیے سی ڈی سی کے صحت عامہ کے ایک نئے حکمنامے میں دیگر کے علاوہ اس براعظم پر مستقبل کی وباؤں سے نمٹنے کی تیاری کرنے اور اُن کا مقابلہ کرنے کے لیے مقامی طور پر ویکسینوں، علاجوں اور تشخیصات کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس کی اقتصادی ترقی کو محفوظ بنانے کے لیے افریقہ کے صحت کے نظاموں میں ایک انتہائی اہم عنصر کے طور پر سرمایہ کاری کرنے کی اشد ضرورت ہے۔”

مارچ 2023 میں امریکی بائیو ٹیک کمپنی، ماڈرنا اور کینیا کی حکومت نے کینیا میں ایم آر این اے ویکسین بنانے کی ایک نئی فیکٹری قائم کرنے کا اعلان کیا جس میں ہر سال ویکسین کی 500 ملین خوراکیں تیار کی جائیں گیں۔ ماڈرنا ایچ آئی وی/ایڈز، ملیریا اور ٹی بی سمیت عالمی صحت عامہ کو لاحق مسلسل خطرات سے نمٹنے کے لیے ویکسینوں اور علاج کا کام ترجیحی بنیادوں پر کرے گی۔

مقامی طور پر پھوٹ پڑنے والی وباؤں کی تیاری کے سلسلے میں کی جانے والی اختراعات کے لیے”کولیشن فار ایپیڈیمک پریپرڈنس انوویشنز” (سی ای پی آئی) کے نام سے ایک اتحاد تشکیل دیا گیا ہے۔ اس اتحاد نے جنوری 2023 میں سینی گال کے “ڈاکار پاسچر انسٹی ٹیوٹ” کی طرف سے معمول کے حفاظتی ٹیکوں سمیت سالانہ 300 ملین تک ویکسین کی خوراکیں تیار کرنے کے منصوبوں میں مدد کرنے کے لیے 10 برسوں میں 50 ملین ڈالر تک کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ سی پی پی آئی کو عطیات دینے والوں میں یو ایس ایڈ اور بل اینڈ میلنڈا گیٹس فاؤنڈیشن بھی شامل ہیں۔

2022 میں امریکہ کے صحت کے قومی انسٹی ٹیوٹوں اور کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ کی بائیو ٹیک کمپنی ‘ایفری جین’ کے درمیان افریقی براعظم میں ایم آر این اے ویکسینوں کی تیاری اور تحقیق کے کام کو فروغ دینے کا ایک سمجھوتہ طے پایا۔ ‘ایفری جین’ کمپنی صحت کے عالمی ادارے کے ایم آر این اے ٹکنالوجی کی منتقلی کے بنیادی مرکز کی رکن ہے۔

ترسیلی سلسلوں کو مضبوط بنانا

دور دراز علاقوں میں واقع بستیوں میں ویکسینیں پہنچانے کی خاطر سرد خانوں کی ضرورتیں پوری کرنے اور دیگر مشکلات سےنمٹنے کے لیے کووڈ-19 وبا کے دوران امریکی حکومت نے ‘گلوبل ویکس’ نامی ایک منصوبے کا آغاز کیا۔ گلوبل ویکس منصوبے کے تحت انگولا، آئیوری کوسٹ، ایسواتینی، گھانا، لیسوتھو، نائجیریا، سینی گال، جنوبی افریقہ، تنزانیہ، یوگنڈا اور زیمبیا سمیت کئی ممالک میں ویکسین کی رسائی کو بہتر بنانے پر کام کیا گیا۔

لوگ گاڑی سے ایک بڑا فریزر سے اتار رہے ہیں (U.S. Air Force/Senior Airman Dwane R. Young)
سمبا کیمپ، کینیا میں امریکی فوجی ایک گاڑی سے فریزر اتار رہے ہیں جس میں کووڈ-19 ویکسینیں رکھی ہوئیں ہیں۔ (U.S. Air Force/Senior Airman Dwane R. Young).

دسمبر 2022 میں یو ایس ایڈ کے خریداری اور سپلائی کی انتظام کاری کے پراجیکٹ اور بین الاقوامی شراکت داروں نے کووڈ-19 ویکسینوں کو محفوظ رکھنے کے لیے درکار انتہائی کم درجہ حرارت والے فریزروں اور ریفریریجریٹڈ شپنگ بکسوں اور ذخیرہ کرنے والے دیگر آلات انگولا پہنچائے۔ یہ پراجیکٹ صحت سے متعلقہ اشیا کی ترسیل کے عالمی پروگرام کا حصہ ہے۔ اِن آلات سے ویکسینوں کو محفوظ بنانے کے اُن ‘کولڈ چین سسٹمز’ میں مدد مل رہی ہے جو بچپنے میں مختلف بیماریوں کے خلاف لگائے جانے والے حفاظتی ٹیکوں کے نظام میں آسانیاں پیدا کرتے ہیں۔

یو ایس ایڈ انگولا کی وزارت صحت کے ساتھ مل کر ماضی کے طبی سامان کے ترسیلی سلسلوں پر کی جانے والی سرمایہ کاریوں کو آگے لے کر چلنے پر کام کر  رہا ہے تاکہ ملیریا اور ایچ آئی وی/ایڈز کا بہتر طور پر مقابلہ کیا جا سکے۔ یو ایس ایڈ کا ترسیلی سلسلے کا پروگرام بنگلہ دیش، کیمرون، اردن، فلپائن اور یوگنڈا سمیت دو درجن سے زائد دیگر ممالک میں بھی چل رہا ہے۔

اعتماد میں اضافہ کرنا

محفوظ طریقے سے پہنچائی جانے والیں ویکسینیں صرف اُسی صورت میں کامیاب ہو پاتی ہیں جب لوگ انہیں لگواتے ہیں۔ اسی لیے ایسی معلومات عام کرنے کی کوششوں میں امریکہ دوسرے ممالک اور اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کررہا ہے جس سے کووڈ-19 ویکسینیوں پر اعتماد بڑھا ہے۔ اس کے نتیجے میں دیگر بیماریوں کے خلاف حفاظتی ٹیکوں میں پائے جانے والے تذبذب سے بھی نمٹا گیا ہے۔

کووڈ-19 ویکسینیشن سنٹر کے سائن کے قریب قطار میں کھڑے لوگ انتظار کر رہے ہیں (© NurPhoto/Getty Images)
بھارتی ریاست اوڈیشہ کے شہر بھوبنیشور میں 12 اپریل 2021 کو لوگ کووڈ-19 ویکسین لگوانے کے لیے لائن میں کھڑے ہیں۔ (© NurPhoto/Getty Images)

گلوبل ویکس پروگرام کے تحت امریکی حکومت نے بھارتی حکومت اور مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کووڈ-19 ویکسینوں کے بارے میں سوالات کے جواب دینے اور خدشات دور کرنے کے لیے میٹنگوں کا بندوبست کیا۔ اس کام کی وجہ سے کئی ملین بھارتی شہریوں نے کووڈ-19 کی ویکسینیں لگوائیں۔ ریاست اوڈیشہ کے ایک دور دراز علاقے میں رہنے والیں ایک بزرگ خاتون، موسلی ڈیگل ویکسین لگوانے کے اپنے فیصلے کا صلہ لوگوں سے رابطے کی مہم کو دیتی ہیں۔

موسلی ڈیگل نے کہا کہ “جب میرے تمام سوالات کے جوابات مجھے مل گئے اورویکسین کی اہمیت کے بارے میں مجھے یقین ہوگیا تو میں نے ویکسین کی پہلی خوراک لگوا لی۔”