امریکی اور برطانوی عورتوں  کو ووٹ کا حق ملنے سے قریباً سو سال بعد بھی یہ کامیابیاں حاصل کرنے والی خواتین دوسروں کے لیے باعث تحریک ہیں۔

مثال کے طور پر حالیہ مہینوں سے ایرانی خواتین ایسے قوانین کے خلاف کھلے عام احتجاج کرتی چلی آ رہی ہیں جن کے تحت عورتوں کے لیے گھر سے باہر حجاب اوڑھنا لازم قرار دیا گیا ہے۔ حجاب سر ڈھانپنے والا مسلمان  خواتین کا روایتی رومال یا دوپٹہ ہوتا ہے۔ ایران کی خود ساختہ ‘اخلاقی پولیس’ کی جانب سے ان احتجاجی مظاہرین پر تشدد کی ویڈیو اور کہانیوں نے ایرانی عوام اور دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ  دیا ہے۔

Sepia photo of woman standing at White House gate holding a sign in 1917 (© American Photo Archive/Alamy)
1917 میں وائٹ ہاؤس کے سامنے ایک “خاموش سنتری”۔ (© American Photo Archive/Alamy)

امریکہ میں خواتین کے ووٹ کے حق کے لیے جدوجہد پر لکھی گئی ‘عورت کا جہاد’ نامی کتاب کی مصنفہ میری والٹن کہتی ہیں، ”ایرانی عورتوں کی طرح یہاں (امریکہ) اور انگلینڈ میں بھی خواتین کو عوامی سطح پر احتجاج کی پاداش میں مار پٹائی، گرفتاریوں اور قیدوبند کا سامنا کرنا پڑا۔” وہ کہتی ہیں  کہ خواتین کی رائے دہندگی کی حامی خواتین جیل میں اور رہائی کے بعد اپنا احتجاج جاری رکھتی تھیں۔

20ویں صدی میں دنیا بھر کی حکومتیں خواتین کو ووٹ کا حق دینے سے انکاری تھیں۔ 1917 میں امریکہ میں ایلس پال اور ان کی ساتھی خواتین نے عورتوں کے حق  رائے دہی کی جدوجہد شروع کرنے والی سوسن بی انتھونی اور الزبتھ کیڈی سٹینٹن جیسی خواتین  کے کام کو آگے بڑھایا اور وائٹ ہاؤس کے گھیراؤ کا بے مثل قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنے آپ کو ‘خاموش سنتری’  قرار دیا اور نعروں پر مبنی بڑے بڑے پوسٹر لے کر کھڑی ہو گئیں جن پر لکھا تھا ”جناب صدر، خواتین کو آزادی کے لیے کتنی لمبی انتظار کرنا ہو گی؟”

اگرچہ وہ ساکت اور خاموش کھڑی رہتی تھیں تاہم انہیں یوں پہرہ دیتے دیکھ کر وہاں جمع ہونے والے لوگ ان کا تمسخر اڑاتے اور طعنے دیتے۔ بالاآخر ان خواتین کو فٹ پاتھ  پر رکاوٹ بننے کے الزام میں گرفتار کر لیا گیا۔ جیل میں ان خواتین کو زبردستی کھانے پر مجبور کیا گیا اور ان کی تذلیل کی گئی۔ رہائی کے بعد خواتین کے حق رائے دہی کی  حامی یہ خواتین احتجاج کے لیے فوراً وائٹ ہاؤس واپس پہنچ گئیں۔

ان خواتین سے ہونے والے سلوک کی بابت اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں سے رائے عامہ ان کے حق میں ہموار ہونے لگی۔ والٹن کہتی ہیں، ”امریکی یہ سوچنے لگے کہ خواتین سے ایسا سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ لوگ ان عورتوں کی ہمت کے قائل ہو گئے اور انہیں احساس ہوا کہ یہ خواتین ووٹ کے لیے جدوجہد ترک نہیں کریں گی۔ ایسے میں ان کے لیے ہمدردی کی لہر پیدا ہونے لگی۔”

‘خاموش سنتریوں’  کا احتجاج دو برس اور چار ماہ تک جاری رہا۔ یہ احتجاج 1919 میں اس دن ختم ہوا جب سینیٹ اور ایوان نمائندگان نے امریکی آئین میں 19ویں ترمیم کی منظوری دی جس کے نتیجے میں خواتین کو اس سے اگلے سال ووٹ ڈالنے کا حق مل گیا۔

والٹن کہتی ہیں ”اس سے یہ سبق حاصل ہوتا ہے کہ پیچھے مت ہٹیں۔ اپنی جدوجہد جاری رکھیں”

ایرانی خواتین میں بھی پیچھے ہٹنے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دیتے۔ ایرانی سرگرم کارکن مسیح علی نژاد اپنی سلامتی کی خاطر اپنے آبائی ملک سے باہر جبری حجاب کے خاتمے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ ان کی آن لائن تحریک ‘میری خفیہ آزادی‘ حجاب کے بغیر ایرانی خواتین کی تصاویر پوسٹ کرتی ہے۔

علی نژاد نے برطانوی روزنامے ‘دی گارڈین‘ کو بتایا، ”حکام مجھے اور میری مہم پر نظر رکھے ہوئے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ عام خواتین کا احتجاج کرنا کس قدر طاقتور اقدام ہے۔ ہم بھی ووٹ کا حق لینے والی خواتین جیسی ہیں۔ ہم کسی ایسی چیز کے لیے قانون توڑنے کا خطرہ مول لے رہی ہیں جس کے بارے میں ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ وہ ہمارا حق ہے۔”