‘حقوق کی کوئی ضمانت نہیں’ : ایرانی مزدوروں کی حالت زار

اجرتوں  میں اضافے کےلیے آواز اٹھانے والے بس ڈرائیوروں میں بسکٹ تقسیم کرنے کی پاداش میں یونین کے ایک رکن کو پانچ سال کے لیے جیل میں ڈال دیا گیا۔

بسکٹ تقسیم کرنے اور تنخواہوں میں اضافے کے لیے حکام کے ساتھ مذاکرات کرنے کی بنا پر ابراہیم مددی پر ایران میں’ایک جگہ پر جمع ہونے اور قومی سلامتی کے خلاف سازباز کرنے’ کے الزامات  عائد کیے گئے۔ ان کا شمار ایران کے ان لاتعداد کارکنوں میں ہوتا ہے جنہیں مزدوروں کے حقوق کی پرامن سرگرمیوں میں حصہ لینے کی پاداش میں ہراساں، مارا پیٹا اور پابند سلاسل کیا جاتا ہے۔

ایران میں کارکنوں کی طرف سے اجرتوں کی عدم ادائیگی پر ہڑتال کرنے کو اکثر جرم سمجھا جاتا ہے۔

ایران میں محنت کشوں کی سرگرمیوں کے نتائج دکھانے والا تصویری خاکہ۔ (Graphic: State Dept./Images: Shutterstock)
(Graphic: State Dept./Images: Shutterstock)

ایران کو ٹرانسپورٹ ورکروں سے لے کر اساتذہ، دکانداروں اورفیکٹری مزدوروں تک کی جانب سے غیر ادا شدہ اجرتوں، بہتر تنخواہوں اور بہتر حالاتِ کار کے مطالبات کی وجہ سے ہڑتالوں کی ایک لہر کا سامنا  ہے۔

اپنے ہی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایرانی حکومت کارکنوں  کے حقوق کے لیے کام کرنے والی خودمختار تنظیموں اور مزدوروں کو پرامن اجتماع کرنے کی اجازت دینے سے انکار کرتی ہے۔ ایرانی آئین عوامی اجتماع اور مارچ کی اجازت دیتا ہے اور ایران نے اقوام متحدہ کے شہری و سیاسی حقوق کے بین الااقوامی معاہدے پربھی  دستخط کر رکھے ہیں۔

ایرانی کارکنوں کے لیے عالمی حمایت

ایرانی حکومت 2018 کے دوران بڑے بڑے شہروں میں تین مرتبہ ہڑتال کرنے والے  ہزاروں ٹرک ڈرائیوروں کو قابو کرنے کے لیے  [عدالتوں] سے سزائے  موت کا مطالبہ کر چکی ہے۔ کم تنخواہوں اور اجرتوں کی عدم ادائیگی، اور معیشت کی بد انتظامی کی بنا پر مہنگے فاضل پرزوں اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کے خلاف احتجاج کے طور پر ہڑتال کرنے والے سینکڑوں ٹرک ڈرائیوروں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔

بین الاقوامی ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن کے جنرل سیکرٹری سٹیفن کاٹن نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے، “ہڑتال پر سزائے موت محنت کشوں کے حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ یہ غیر انسانی اور ناقابل تصور اقدام ہے۔”

امریکہ اور کینیڈا میں 14 لاکھ ٹرانسپورٹ ورکرز کی نمائندہ تنظیم انٹرنیشنل برادرہڈ آف ٹیم سٹرز کے صدر، جیمز ہوفا نے ایرانی حکومت پر زور دیا ہے کہ ہڑتالی ٹرک ڈرائیوروں کی شنوائی کی جائے، ان کے مطالبات پورے کیے جائیں اور ان کے “اکٹھے ہونے، تقریر اور انجمن سازی اور اجتماعی سوداکاری کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ حقوق کو تسلیم کیا جائے۔

ہوفا نے کہا، “انٹر نیشنل برادر ہڈ آف ٹیم سٹرز …  یکجہتی کے طور پر اپنی ایرانی بہنوں اور بھائیوں کے ساتھ کھڑی  ہے۔”

مارچ میں اہواز میں تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر احتجاج کرنے والے سٹیل ورکروں پر حملہ کرنے اور انہیں حراست میں لینے کے معاملے پرانٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریش کی جنرل سیکرٹری، شیرن برو نے کہا ہے کہ ایران میں اجرتوں کی عدم ادائیگی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایران میں مزدوروں کے مسائل “ایرانی فوج کی معاشی معاملات پر مکمل گرفت اور سخت گیر قدامت پسند مذہبی پیشوا ؤں کےاثر کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں۔”

سٹیل ورکروں کی طرح  2018 میں اہواز کے ہفت تپہ کے علاقے کے گنے کے کارکنوں نے بھی اپنی فیکٹریوں میں بدانتظامی اور تنخواہوں کی عدم ادائیگی پر کئی مرتبہ ہڑتالیں کیں۔ سکیورٹی فورسز کی بھاری موجودگی اور ماضی کی اجتماعی گرفتاریوں کے باوجود، سٹیل ورکروں نے گنے کے کارکنوں  کے ساتھ مل کر اپنے گرفتار ساتھیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا۔

سنگین   ناکامی کی صورت حال

اس سال کے احتجاجی مظاہروں کی لہر سے پہلے بھی عالمی تنظیموں نے مزدوروں کے ساتھ ناروا سلوک روا رکھنے  پر ایران کی مذمت کی تھی۔ محنت کی بین الاقوامی تنظیم نے ایران جس کا بانی رکن ہے، اپنی 2017ء کی عمومی رپورٹ میں ایران کا شمار ان ممالک میں کیا ہے جو اپنے مزدوروں کے حالات کے بارے میں آگاہی  دینے میں ‘سنگین طور پر ناکام’ رہے ہیں۔

اسی طرح انٹرنیشنل ٹریڈ یونین کنفیڈریشن نے مزدوروں کے حقوق کے حوالے سے2018  میں اپنی تیار کردہ عالمی درجہ بندی میں ایران کو مزدوروں کے “حقوق کی کوئی ضمانت نہ دینے”  پر نچلے ترین درجے میں شمار کیا ہے۔

انٹرنیشنل ٹرانسپورٹ ورکرز فیڈریشن کےسٹیفن کاٹن کا کہنا ہے، “مسئلے کو معاشی طور پر حل کیا جانا چاہیے ناکہ سزائے موت کی دھمکیوں سے۔”

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے کہا، “امریکہ غیر منصفانہ حکمرانی کرنے والوں کی طرف سے ایران کی عوام پر روا رکھے گئے جبر کی مذمت کرتا ہے۔ ہم فخر سے ایرانی عوام کی آواز بلند کرتے ہیں جو ایران میں اس بات کے خواہاں ہیں کہ ناقابل انتقال اور آفاقی انسانی حقوق کی نظر اندازی کا خاتمہ ہو اور انہیں نظر انداز کرنے کی بجائے ان کا احترام کیا ائے۔”