منہ پر ہاتھ رکھے ہوئے ایک آدمی سڑک پر کھڑا ہے (© AFP/Getty Images)
16 نومبر 2019 کو ایرانی دارالحکومت تہران میں پٹرول کی قیمتوں میں ہونے والے اضافے کے خلاف مظاہروں کے دوران ایک ایرانی نے آنسو گیس سے بچنے کے لیے اپنے منہ پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ (© AFP/Getty Images)

ایرانی حکومت کی تفصیلات پر پردہ ڈالنے کی کوششوں کے باوجود، انسانی حقوق کے حامی نومبر 2019 میں ملک بھر میں ہونے والے احتجاجی مظاہروں کے  جواب میں ایرانی حکومت کے پرتشدد ردعمل کو منظر عام پر لانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ایک سال سے زائد کا عرصہ گزر چکنے کے باوجود بھی امریکہ اور انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ظالمانہ ردعمل کی آزادانہ  تحقیقات  کا مطالبہ کر رہی ہیں۔

برطانیہ میں قائم “جسٹس فار ایران” (ایران کے لیے انصاف) نامی انسانی حقوق کی تنظیم نے گزشتہ برس سرجان، کرمان میں احتجاجی مظاہرین پر کیے جانے والے تشدد کے بارے میں 13 نومبر کو ایک رپورٹ شائع کی۔

سرجان میں احتجاجی مظاہروں کے دوران سکیورٹی اہلکاروں نے مہلک طاقت کا استعمال کیا جس  کے نتیجے میں کئی لوگ زخمی ہوئے اور کم از کم ایک آدمی ہلاک ہوا۔

اس رپورٹ میں کہا گیا ہے، “سرجان کے احتجاجی مظاہروں میں موجود افراد نے مظاہروں کی 24 ویڈیوز بنائیں اور انہیں سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔ جسٹس فار ایران کا اِن ویڈیوز کا بغور جائزہ ظاہر کرتا ہے کہ احتجاج کرنے والوں کے پاس ہتھیاروں کی موجودگی کی کوئی شہادت نہیں ملتی اور حکام کے دعووں کے برعکس نہ ہی ان سے کسی کی زندگی کو کوئی خطرہ لاحق تھا۔ ”

جسٹس فار ایران نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے احتجاجی مظاہروں کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ اس تنظیم کے مطابق احتجاج کرنے والوں کے خلاف تشدد کی کاروائیوں کی تحقیقات میں ناکامی، انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

 سڑک پر کھڑی کاروں کے قریب لوگوں کے ہجوم کا فضائی منظر (© AP Images)
ایران کے وسطی شہر اصفہان میں 16 نومبر 2019 کو پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے احتجاج کے دوران سڑک پر کھڑی کاروں نے سڑک بند کر رکھی ہے۔ (© AP Images)

15 نومبر 2019 کو ایرانیوں نے پٹرول کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف احتجاج شروع کر دیئے۔ یہ احتجاج کئی دن جاری رہے اور بعد میں  اِن میں آئینی اصلاحات کے مطالبات بھی شامل کر دیئے گئے۔ اِن احتجاجوں کے دوران 1,500 افراد ہلاک ہوئے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل کی اے ویب آف امپیونٹی (سزا سے استثنا کا جال) کے عنوان سے جاری کی جانے والی رپورٹ میں 304 افراد کی ایک مفصل فہرست شامل ہے جن کی ان کاروائیوں کے دوران ہلاکتوں کی ایمنسٹی انٹرنیشنل نے تصدیق کی ہے۔ ویب سائٹ پر ہلاک شدگان کی تصاویر اور اُن کی اموات کی وجوہات بھی درج کی گئی ہیں۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ایرانی حکام سے اِن احتجاجی مظاہروں میں ہلاک ہونے والے افراد کی مکمل انفرادی معلومات شائع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ایرانی حکام تمام ہلاکتوں اور اِن احتجاجی مظاہروں سے جڑی انٹرنیٹ کی بندش کی  آزادانہ تحقیات کریں۔ اس تنظیم نے اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل سے احتجاجوں کے دوران ہونے والی تمام ہلاکتوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

ایمنسٹی انٹرنیشنل نے کہا، “احتجاجی مظاہروں کے ایک سال گزر جانے کے بعد، ایرانی حکام کھلی، آزاد اور غیر جانبدار تحقیقات کرنے اور احتساب کو یقینی بنانے کے اپنے انکار پر بضد ہیں۔ درحقیقت، اعلٰی عہدیداروں نے ان ظالمانہ کاروائیوں میں سکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے کردار کی کھلے بندوں تعریف کی ہے۔”

جب احتجاجی مظاہرے پھیل رہے تھے تو ایران کے لیڈروں نے 16 نومبر 2019 کو احتجاجوں سے متعلق خبروں کو دبانے اور احتجاج کرنے والوں کو سکیورٹی ایجنسیوں کی جانب سے کیے جانے والے تشدد کو دستاویزی شکل میں محفوظ کرنے کو روکنے کی خاطر انٹرنیٹ اور موبائل فون سروس بند کر دی۔

انٹرنیٹ سروس تو پانچ دن بعد بحال کر دی گئی مگر موبائل سروس کو 27 نومبر2019 تک بند رکھا گیا۔

اِن مظالم کی برسی کے موقع پر وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے 15 نومبر کو کہا، “ایرانی حکومت نے سنسرشپ، دھمکیوں اور انٹرنیٹ کی بندشوں کی ڈیجیٹل تاریکی کے ذریعے اپنی ظالمانہ کاروائیوں کو چھپانے کی کوشش کی ہے اور ابھی تک اس تباہ کن ہفتے کے دوران کی جانے والی ہلاکتوں کی آزادانہ تحقیقات کرانے سے انکار کرتے چلی جا رہی ہے۔ تاہم ہم اس حکومت کا نشانہ بننے والوں کو کبھی نہیں بھولیں گے۔”