ڈورین بوگڈن-مارٹن جنیوا میں اقوام متحدہ کی عمارت کے سامنے کھڑی ہیں (State Dept.)
ڈورین بوگڈن-مارٹن جنیوا میں قائم "انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن یونین" کے سربراہ کے عہدے کے لیے انتخاب لڑ رہی ہیں تاکہ سب لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کی جا سکے۔ (State Dept.)

کووڈ-19 وباء کے دوران لاکھوں لوگوں نے اپنی ملازمتوں، سکولوں اور اہل خانہ اور دوستوں سے رابطے میں رہنے کے لیے انٹرنیٹ استعمال کرنا شروع کر دیا۔ تاہم اقوام متحدہ کے مطابق اب بھی 2.9 ملین سے زائد لوگوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل نہیں۔

اگر ڈورین بوگڈن-مارٹن اقوام متحدہ کی ‘ انٹرنیشنل ٹیلی کمیونیکیشن’ [آئی ٹی یو] کی سیکرٹری جنرل منتخب ہوگئیں تو اُن کی اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش ہوگی کہ سب لوگ اس ڈیجیٹل دور سے لطف اندوز ہو سکیں۔

بوگڈن-مارٹن نے کہا کہ “ڈیجیٹل [دور] تیزی سے وہ طریقے ازسرنو  وضح کر رہا ہے جن کے ذریعے ہم کاروبار کرتے ہیں، ہم ملتے جلتے ہیں اور حتٰی کے ہم اپنے بچوں کی پرورش کرتے ہیں۔ میرے ذہن میں سب کے لیے ایک با اعتماد مربوط ڈیجیٹل مستقبل مہیا کرنے کا تصور ہے۔”

جنیوا میں قائم آئی ٹی یو براڈ بینڈ کو عالمی سطح پر کام کرنے میں مدد کرنے، سپیکٹرم اور سیٹلائٹوں کے ارضی مدار میں وسائل کے لیے کنکشنوں کو کنٹرول کرنے کے علاوہ اور بہت سے کام کرتی ہے۔ 29 ستمبر کو اعلٰی پالیسی فیصلے کرنے والی کانفرنس کا اجلاس رومانیہ کے شہر بخارسٹ میں ہوگا جس میں آئی ٹی یو کے 193 رکن ممالک نئے سیکرٹری جنرل کا انتخاب کریں گے۔

اگر بوگڈن-مارٹن منتخب ہو جاتی ہیں تو وہ آئی ٹی یو کی شراکت داریوں کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں گیں اور اقوام متحدہ کے اس ادارے کی دیانت داری اور جوابدہی کے ساتھ قیادت کریں گیں۔ وہ 1995 سے اس ادارے میں کام کر رہی ہیں۔

تجربہ اور مستقبل کا تصور

 ڈ ورین بوگڈن-مارٹن سٹیج سے تقریر کر رہی ہیں اور پس منظر میں امریکی جھنڈا نظر آ رہا ہے (State Dept.)
ڈورین بوگڈن-مارٹن جنیوا میں مارچ 2022 میں آئی ٹی یو کی مندوبین کی کونسل سے خطاب کر رہی ہیں۔ (State Dept.)

بوگڈن-مارٹن کو انفارمیشن اینڈ کمیونیکیشن ٹیکنالوجی [آئی سی ٹی] اور حکومتی معاملات کے بارے میں 30 سال کا تجربہ حاصل ہے۔ وہ جنوری 2019 سے آئی ٹی یو کی ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے کی ترقیاتی ڈائریکٹر کے عہدے پر کام کر رہی ہیں۔ وہ  آئی ٹی یو کے پانچ قیادتی عہدوں میں شمار ہونے والے اس عہدے کی سربراہی کرنے والے پہلی خاتون ہیں۔

ترقیاتی ڈائریکٹر کے طور پر انہوں نے غیر منسلک کمیونٹیوں کو منسلک کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ آئی ٹی یو کے وسائل معاشرے کے سب سے زیادہ ضرورت مند طبقات  تک پہنچیں، رکن ممالک، نجی شعبے، سول سوسائٹی اور اقوام متحدہ کے دیگر اداروں کے ساتھ  شرکت داری کر رہی ہیں۔ روانڈا کے شہر کیگالی میں 6 سے لے کر 16 جون تک ٹیلی کمیونیکیشن کی ایک عالمی ترقیاتی کانفرنس ہوئی۔ اس کانفرنس میں بوگڈن-مارٹن نے “پارٹنر ٹو کنیکٹ” کے نام سے شروع کردہ اپنے منصوبے کے ذریعے کنیکٹیوٹی [جڑت] کے پراجیکٹوں کے لیے 25 ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم کے وعدے حاصل کرنے میں مدد کی۔ اِن وسائل سے کنیکٹیویٹی کی راہ میں حائل رکاوٹوں پر قابو پانے میں کمیونٹیوں کو مدد ملے گی اور پائیدار ترقی کے فوائد کو دنیا بھر میں لاکھوں تک پہنچایا جا سکے گا۔

ٹکنالوجی میں صنفی فرق کو دور کرنا اور نوجوانوں کو با اختیار بنانا

بوگڈن-مارٹن ٹیکنالوجی سے متعلقہ شعبوں میں لڑکیوں اور عورتوں کے لیے مساوی رسائی کو یقینی بنانے کی پرزور حامی ہیں۔ ورلڈ اکنامک فورم کے مطابق گو کہ لڑکیاں اور عورتیں دنیا کے محققین کا ایک تہائی حصہ ہیں اس کے باوجود سائنس اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں خواتین کی نمائندگی کم ہے۔ صنفی فرق کو ختم کرنے میں مدد کرنے کے لیے انہوں نے “ایکولز” کے نام سے ٹکنالوجی میں صنفی فرق مٹانے کے لیے کام کرنے والیں بین الاقوامی تنظیموں، کاروباری اور دیگر اداروں کے ساتھ شراکت کاری قائم کرنے کی کوششوں کی قیادت کی تاکہ صنفی فرق کو دور کیا جا سکے۔

بوگڈن-مارٹن ڈیجیٹل دور کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے “جنریشن کنیکٹ” نامی منصوبے کے تحت نوجوانوں کو بھی ساتھ لے کر چل رہی ہیں۔ اس کے علاوہ اِس منصوبے میں ترقی کے لیے ٹیکنالوجی متعارف کرانے کے طریقے، آن لائن دنیا کے لیے محفوظ ماحول کی فراہمی اور کام کے مستقبل کے لیے تیاری کرنا بھی شامل ہے۔ وہ یونیسیف کے ساتھ “گیگا پراجیکٹ” کے نام سے کیے جانے والے تعاون کی بھی قیادت کر رہی ہیں۔ یہ پراجیکٹ ستمبر 2019 میں شروع کیا گیا اور اس کا مقصد دنیا کے ہر سکول کو انٹرنیٹ کے ذریعے آپس میں جوڑنا ہے۔

بوگڈن-مارٹن کہتی ہیں کہ 2030 کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے مقرر کردہ دیرپا ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے ایسی کنیکٹیویٹی انتہائی اہم ہے جس میں دن بدن اضافہ ہوتا رہے۔

انہوں نے کہا، “ہم اپنی دنیا کو تبدیل کرنے کے لیے ڈیجیٹل ٹیکنالوجیوں کی بے تحاشہ اور ابھی تک بروئے کار نہ لائی جانے والی طاقت کو صرف اسی صورت میں استعمال کر پائیں گے جب ہم اپنے مطلوبہ ڈیجیٹل مستقبل کی جانب سفر میں سب کو ساتھ لے کر چلیں گے۔”