حقِ اشاعت کے ایک بڑے نشان کے ایک طرف سے دروازہ کھولتے ہوئے لوگوں کا تصویری خاکہ (State Dept./D. Thompson)
(State Dept./D. Thompson)

کاپی رائٹ (حق اشاعت) کے امریکی قوانین کی وجہ سے پرانے کلاسیکی فن پاروں کے شائقین اب 1925ء میں شائع ہونے والی کہانیوں، گائے گئے گائوں اور بنائی گئی فلموں  کو استعمال یا اُن کو نئی شکلوں میں ڈھال سکیں گے۔ حق اشاعت کے قوانین تخلیق کاروں کے روزگاروں کے تحفظ اور مستقبل کی نسلوں کی لطف اندوزی، دونوں مقاصد کے لیے بنائے گئے ہیں۔

یکم جنوری 2021 کو بلا قیمت عوامی استعمال کے لیے دستیاب ہونے والے فن پاروں میں ایف سکاٹ فٹزجیرالڈ کے “دا گریٹ گیٹسی” اور ورجینیا وولف کے “مسز ڈیلووے” کے ناول کے ساتھ ساتھ، جاز کا ہر دلعزیز “سویٹ جارجیا براؤن” اور گیرٹروڈ  “ما” رینی کے گانے بھی شامل ہیں۔

اساتذہ اور تھیئٹر گروپوں سے لے کر انٹرنیٹ کمپنیوں تک اب ہر کوئی 1925ء کی کتابیں آن لائن پوسٹ کر سکتا ہے یا پرانے ڈراموں کو موجودہ حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے نئے ڈرامے بنا سکتا ہے۔

ایک مقررہ مدت کے بعد فن اور ادب کا مفت استعمال امریکی حق اشاعت کے قانون کا وہ بنیادی اصول ہے جس کا مقصد تخلیق کاروں کے کام کے معاوضے کے حق میں توازن قائم کرتے ہوئے ثقافتی اہمیت کے حامل فن پاروں کو آنے والی نسلوں کے استعمال اور اِن سے لطف اٹھانے کے لیے محفوظ بنانا ہے۔

امریکی آئیین پر مبنی حق اشاعت، املاکِ دانش کے قانون کی ہی ایک ایسی شکل ہے جس کے تحت نظموں، ناولوں، گانوں، فن تعمیر اور یہاں تک کہ کمپیوٹر سافٹ ویئروں سمیت تصنیف کے اصل کاموں کو تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔ املاکِ دانش کی دیگر شکلوں میں ایسے پیٹنٹ اور ٹریڈ مارک (امتیازی تجارتی نشان) بھی شامل ہیں جو ایجادات، اور اشتہاروں میں استعمال کیے جانے والی علامات یا نعروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

حقائق، نظریات یا طریقہ کار حق اشاعت کے دائرہ کار میں نہیں آتے مگر اِن تصورات کے بارے میں مصنفین کے تاثرات اس کے دائرہ کار میں آتے ہیں۔

حق اشاعت کے دو پہلو ہیں۔ پہلا، بلاشرکت غیرے حقوق اور اس کے بعد دوسرا استعمال کی آزادی ہے۔ یہ دونوں پہلوتخلیق کاروں کو ترغیب دیتے ہیں۔ جب حق اشاعت نافذالعمل ہوتا ہے تو مصنفین اپنی تصنیفات سے مالی فوائد حاصل کر سکتے ہیں۔

ناول نگاروں، شاعروں، تاریخ دانوں اور صحافیوں کی نمائندگی کرنے والی “دا آتھرز گِلڈ” نامی یونین کے عہدیداروں کا کہنا ہے، “موثر حقِ اشاعت کا تحفظ پیشہ وارانہ مصنفیت کی اہم ترین بنیاد ہے۔ یہ مصنفین کو تحریر کے ذریعے روزی کمانے کے قابل بناتا ہے۔”

تاہم ادب کی حقِ اشاعت سے آزادی، پرانے گانوں اور کہانیوں کی دستیابی میں اضافہ کرتی ہے اور اِن کو نئی تخلیقات میں استعمال کرنے کی اجازت دیتی ہے۔ نامور ادبی ناقد نارتھ روپ فرائی کا کہنا ہے، “شاعری صرف دوسری شاعری (کی مدد) سے تخلیق کی جا سکتی ہے، (اور) ناول دوسرے ناولوں (کی مدد) سے لکھے جا سکتے ہیں۔”

اس سال 1925ء کے حق اشاعت کے خاتمے سے ہارلیم نشاۃ ثانیہ کے ادب پارے اور پہلی عالمی جنگ کے لمبے عرصے تک جاری رہنے والے المیے کی عکاسی کرنے والی کہانیاں عوامی پہنچ میں آ جائیں گی۔ سرکاری اور نجی لائبریریاں ہزاروں کتب کو آن لائن پوسٹ کر سکیں گی۔

ہیتھی ٹرسٹ تعلیم اور تحقیقی شراکت کا ادارہ ہے اور ایک بہت بڑی ڈیجیٹل لائبریری چلاتا ہے۔ اس کےایگزیکٹو ڈائریکٹر، مائیک فرلو نے ‘سمتھ سونین میگزین‘ کو سال 2019 کے “پبلک ڈومین ڈے” (عوامی رسائی کے دن) کے موقع پر جاری کیے جانے والے پرانے کلاسیکی فن پاروں کہا، “ہم جن فن پاروں کو عام کر رہے ہیں اُن کے بارے میں ہم پیش گوئی کر سکتے ہیں کہ لوگ اِن سے کس طرح سے فائدے اٹھائیں گے۔ اور یہی وہ چیز ہے جو اسے اتنا زیادہ دلچسپ بناتی ہے۔”

یہ مضمون ایک مختلف شکل میں اس سے پہلے 12 فروری 2019 کو بھی شائع کیا جا چکا ہے۔