معلومات کی آزادی کا قانون (ایف او آئی اے) امریکہ کے حکومتی اداروں کو شہریوں کی جانب سے موصول ہونے والی درخواستوں پر سرکاری ریکارڈ فراہم کرنے کا پابند بناتا ہے۔ گو کہ یہ قانون 1966 میں بنایا گیا تاہم اس سے پہلے اور بعد میں کئی دہائیاں اس کی تشکیل اور پختگی کے حوالے سے اہم رہی ہیں۔
کیلی فورنیا سے تعلق رکھنے والے رکن کانگریس، جان موس نے پہلی مرتبہ سرد جنگ کے دوران 1955 میں اُس وقت معلومات کی آزادی کے قانون کی بات کی جب حکومت کی جانب سے اخفا کی پالیسی زوروں پر تھی۔ تاہم اس خیال کو کانگریس کی حمایت حاصل کرنے میں مزید 11 برس لگے۔ 1974 میں کانگریس نے ‘ایف او آئی اے’ میں ترمیم کر کے معلومات کی فراہمی میں ناکامی کے حوالے سے اداروں کے لیے قابل نفاذ رہنمایانہ اصول وضح کیے اور سزائیں تجویز کیں۔

جیسا کہ گراف سے ظاہر ہوتا ہے معلومات کی آزادی کے قانون سے اپنی رپورٹس پر کام کرنے والے صحافیوں نے ہی استفادہ نہیں کیا۔ کاروباری حضرات بولی دینے کے حوالے سے اپنی صلاحیتیں بہتر بنانے یا منڈی پر تحقیق کے لیے حکومتی اعدادوشمار سے فائدہ اٹھانے کی غرض سے اس قانون کی بدولت ماضی کی حکومتوں کے اقدامات کے بارے میں معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ صحت کے مسائل پر حکومت کے جمع کردہ اعدادوشمار یونیورسٹی کی سطح پر تحقیق کا قابل قدر ذریعہ ہوتے ہیں۔ معلومات کی آزادی کے قانون کے تحت ریکارڈ کی فراہمی کی درخواست دینے کے لیے آپ کا کسی ادارے سے وابستہ ہونا حتیٰ کہ امریکی شہری ہونا بھی لازمی نہیں ہے۔ اس قانون کا مقصد لوگوں کو امریکی حکومت کے اقدامات کے بارے میں آگاہی دینا ہے۔
آزادیِ معلومات کے قانون کے تحت دی جانے والی درخواستوں میں سے مسترد کی جانے والی درخواستوں کی سالانہ تعداد انتہائی قلیل ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان میں جو معلومات پوچھی جاتی ہیں وہ ‘ایف او آئی اے’ کی نو استثنیات کے زمرے میں آتی ہیں۔ ان معلومات کا تعلق قومی سلامتی، شخصی اخفا اور تجارتی رازوں سے ہوتا ہے یا یہ مجرموں سے جاری تفتیش سے متعلق تین استثنیات میں سے ایک ہو سکتی ہیں۔ تاہم بہت سی درخواستوں کے جواب میں معلومات فراہم کی جاتی ہیں اور گزشتہ چند برسوں میں اس قانون سے فائدہ اٹھانے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

‘ایف او آئی اے’ کی افادیت
فوجیوں کی مدد
2014 میں’ کولوراڈو سپرنگ گزٹ‘ میں پلٹزر انعام یافتہ سٹوری لکھنے والے صحافی نے غیرشائستہ کردار پر فوج سے برخاست ہونے والوں کے بارے میں ‘ایف او آئی اے’ کے تحت معلومات حاصل کیں۔ ان دستاویزات میں ہزاروں ایسے فوجیوں کا انکشاف ہوا جنہیں ذہنی صحت کے مسائل درپیش تھے اور جنہیں ملازمت کے فوائد سے محروم کرتے ہوئے نامناسب طور سے برخاست کیا گیا۔ یہ رپورٹ شائع ہونے کے بعد فوج کے قوانین میں تبدیلی کر کے یہ امر یقینی بنایا گیا کہ برخاستگی کے بورڈ میں ذہنی صحت کے ماہرین کو بھی شامل کیا جائے گا۔
ڈرون اور تحفظ
2014 میں جب کانگریس کو کمرشل فضائی حدود میں بغیرپائلٹ کے ڈرون جہاز اڑانے کی اجازت دیئے ہوئے تھوڑا سا عرصہ ہی گزرا تھا تو ‘واشنگٹن پوسٹ’ کے ایک رپورٹر نے ‘ایف او آئی اے’ کے ذریعے ایئرفورس کے ریکارڈ تک رسائی حاصل کی۔ ریکارڈ سے انکشاف ہوا کہ 400 سے زائد فوجی ڈرون فنی خرابی کے باعث گر کر تباہ ہو چکے ہیں۔ اُس وقت تک ڈرون کے حوالے سے پالیسی پر ہونے والی بحث نجی اخفا کے خدشات پر ہی مرکوز تھی۔ اس مضمون سے ظاہر ہوا کہ ڈرون کے حوالے سے جاری بحث میں تحفظ کا پہلو بھی مدنظر رکھا جانا چاہیے اور اسے مدنظر رکھا گیا۔