توقع کی جا رہی ہے کہ تہواروں کے موجودہ موسم میں 50,000 افراد وائٹ ہاؤس کو دیکھنے آئیں گے۔ (وائٹ ہاؤس کو عام بول چال میں “پیپلز ہاؤس” یعنی عوامی گھر بھی کہا جاتا ہے۔) خاتون اول جِل بائیڈن نے سجائے گئے ایگزیکٹو مینشن کو دیکھنے کے لیے آنے والوں کی گنجائش کے حساب سے تعداد مکمل ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ “ہم امریکیوں کو گھر میں خوش آمدید کہنے پر شکرگزار ہیں۔”
خاتون اول نے سال 2022 کے تہوار کی سجاوٹوں کی نقاب کشانئ کرتے ہوئے پریس کے اراکین سے کہا کہ آپ اس کی تمام راہداریوں، عالیشان کمروں، چمکتی ہوئی گھنٹیوں اور شیشے کی بنی سجاوٹی اشیاء میں “اپنا عکس دیکھیں گے جو اس امر کی یاد دہانی اور درخواست ہے کہ آپ اپنے آپ کو اس گھر میں دیکھیں۔”
درحقیقت وائٹ ہاؤس کی کرسمس کی سجاوٹوں کا اس سال کا مرکزی خیال “ہم لوگ” ہے۔ اس برس کی سجاوٹوں میں کرسمس کی 83,615 لائٹیں، 77 کرسمس ٹری، پھولوں کی 25 چادریں اور جنجر بریڈ کا بنا ایک گھر شامل ہے جس پر 18 کلوگرام مکھن اور چینی کی تہہ بچھائی گئی ہے۔
بائیڈن نے کہا کہ یہ مرکزی خیال “ہمارے غیرمعمولی ملک کی بنیاد اور ہماری قوم کی روح ہے۔ ہر سال تہواروں کے موقعوں پر امریکی بھائی چارے اور یقین کے ساتھ اکٹھے ہوتے ہیں اور ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ ہم علیحدہ ہونے کے مقابلے میں ایک کمیونٹی کی شکل میں زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔”

خاتون اول نے موسم سرما کے تہواروں کے لیے وائٹ ہاؤس کو تیار کرنے میں مدد کرنے والے 150 رضاکاروں کا شکریہ ادا کیا۔ اس دوران صدر اور خاتون اول کے آنجہانی بیٹے، بیو کی جو نیشنل گارڈ کے ممبر تھے، یاد میں خاتون اول کے ساتھ نیشنل گارڈ کے اراکین اور اُن کے اہل خانہ بھی موجود تھے۔ جِل بائیڈن نے کہا کہ “نیشنل گارڈ کے رکن کی والدہ اور دادی کی حیثیت سے میں نیشنل گارڈ کے خاندانوں کو خوش آمدید کہنا چاہتی تھی تاکہ آپ میرے معزز مہمانوں کی حیثیت سے اس برس کے تہواروں کے موسم کا آغاز کرنے میں ہماری مدد کر سکیں۔ آپ کی خدمت ‘ہم لوگوں’ کی عملی تصویر ہے۔”
انہوں نے کہا کہ “جو اقدار ہمیں متحد رکھتی ہیں وہ آپ اپنے گردوپیش ہر جگہ دیکھ سکتے ہیں یعنی امکانات، امید اور اتحاد۔ ہر ایک کمرہ اُن [اقدار] کی نمائندگی کرتا ہے جو تہواروں کے دوران اور پورا سال ہم کو متحد رکھتی ہیں۔”

وائٹ ہاؤس کے سرکاری ضیافتی کمرے میں بچوں پر توجہ مرکوز کی گئی ہے کیونکہ “ہم لوگ” کا نظریہ بھی آنے والی نسل کے لیے امید کی صورت گری کرتا ہے۔ کرسمس کی بچوں کی طرح خوشیاں منانے کے لیے کمرے کی سجاوٹ میں بائیڈن خاندان کی روائتی لمبی جرابیں بھی شامل ہیں جن کو کرسمس سے ایک دن پہلے شام کو سانتا کلاز تحفوں سے بھرتا ہے۔ وائٹ ہاؤس کے مطابق اِن تحائف میں ” لمبی جرابوں میں (خاتون اول کی دادی کی روایت کے حوالے سے) مالٹا بھی رکھا جاتا ہے۔

“ہم لوگ” کے مرکزی خیال کو لے کر آگے چلتے ہوئے فلاڈیلفیا کے انڈی پینڈنس ہال کی چینی کے بسکٹوں سے تیار کی جانے والی نقل اور جنجر بریڈ سے تیار کی جانے والی وائٹ ہاؤس کی نقل نمائش میں رکھی گئی ہیں جن کے پس منظر میں اعلان آزادی کی ایک کاپی نظر آ رہی ہے۔ یہ اشیاء سرکاری ضیافتی کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کیے ہوئے ہیں۔
اس کے علاوہ قریب ہی رکھا کرسمس ٹری سجاوٹی اشیاء سے بھرا ہوا ہے جن میں ملک بھر کے سکول کے بچوں کی خود کی بنائی ہوئی تصویریں بھی شامل ہیں تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ بچے کرسمس سے متعلقہ سرگرمیوں میں اپنی شمولیت کو دیکھ سکیں۔

ورمیل روم کی [فرانسیسی زبان میں ورمیل کا مطلب چاندی کی ملمع کاری ہوتا ہے] سجاوٹ اس امر کا اظہار ہے کہ امریکی ایک دوسرے کو کس طرح سراہتے اور اپنے معاشرے کی کیسے خدمت کرتے ہیں۔ اس کمرے میں گھر میں تیار کیے گئے ایسے تحائف کا ڈھیر ہے جو ہمسایوں کے دروازوں کے اگے رکھے دکھائی دیتے ہیں۔ ان میں عجیب عجیب چیزیں بھی رکھی ہوتی ہیں جو مزاح کا احساس پیدا کرتی ہیں جیسا کہ ورمیل روم میں بائیڈن خاندان کی ‘وِلو’ نامی بلی اور ‘کمانڈر’ نامی جرمن شیفرڈ کتے کی بڑے سائز کی شبیہات ہیں۔
چائنا روم میں ماضی کے صدور کے خاندانوں کے استعمال میں رہنے والے کھانے کے برتن رکھے گئے ہیں۔ اس کمرے کے ڈیزائن کا محور کھانے اور خاندانی روایات ہیں۔ اس میں نسل در نسل منتقل ہونے والی پسندیدہ کھانوں کی ترکیبوں کی یادیں بھی ملتی ہیں جن میں موجودہ خاتون اول کی سیبوں سے تیار کی جانے والی ‘ایپل کرسپ’ نامی مٹھائی بنانے کی ترکیب کا آتشدان کے تختے پر رکھا کارڈ بھی شامل ہے جس کے گرد موسمی سبزہ بھی دکھائی دیتا ہے۔

ایسٹ ونگ کی لابی میں مسلح افواج کے اپنی جانوں کی قربانی دینے والے اراکین کے نام شیشے کی سجاوٹوں والی اشیاء پر تحریر ہیں۔ یہ اشیاء کرسمس ٹریز کے گرد دائرے میں رکھی گئی ہیں۔ “گولڈ سٹار ٹریز” ہماری ملک کی مسلح افواج کے اُن بہادر مردوں اور خواتین کو خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جنہوں نے ہمارے ملک کے لیے اپنی جانیں دیں، جو لوگ فوجی کاروائیوں میں لاپتہ ہوئے اور اُن خاندانوں کو جو چلے جانے والوں کے ورثے کو لے کر آگے چل رہے ہیں۔”