27 جنوری ہولوکاسٹ کی یاد کا بین الاقوامی دن ہے۔ اس دن دنیا نازیوں اور ان کے ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہونے والے 6 ملین یہودیوں اور دیگر لاکھوں افراد کو خراج تحسین پیش کرتی ہے۔
آج یہ دن جن حالات میں منایا جا رہا ہے اِن میں یہود دشمنی، ہولوکاسٹ سے انکار اور حقائق کو مسخ کرنے والے خطرناک پیغامات میں نمایاں طور پر اضافہ ہو رہا ہے اور دنیا بھر میں اقلیتی گروہ خطرات سے دوچار ہیں۔
وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والے ایک فرد کے سوتیلے بیٹے کی حیثیت سے اپنے تاثرات ہمارے ساتھ شیئر کیے ہیں۔ ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے افراد کے رشتہ دار محکمہ خارجہ اور امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے میں پبلک سرونٹ کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ وہ عوامی خدمت کا پیشہ اختیار کرنے کی وجہ اپنے خاندانوں کی یادوں کو زندہ رکھے کو قرار دیتے ہیں۔
اُن میں سے چند ایک کی کہانیاں ذیل میں بیان کی جا رہی ہیں:-
سفیر ایمی گٹ مین، امریکی سفارت خارنہ برلن
جس وقت ایڈولف ہٹلر برسراقتدار آیا تو جرمنی میں امریکہ کی موجودہ سفیر ڈاکٹر ایمی گٹ مین کے والد کرٹ گٹ مین نیورمبرگ، جرمنی میں دھات کاری کے شعبے میں تعلیم حاصل کر رہے تھے اور ایک عیسائی خاندان کے ہاں رہ رہے تھے۔ جب انہوں نے اپنے میزبان خاندان کے افراد کو [نازی پارٹی کے نوجوانوں کی تنظیم] ‘ہٹلر یوتھ’ کے اراکین کو نازی سلیوٹ کرتے ہوئے دیکھا تو انہوں نے جرمنی چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
23 برس کی عمر میں وہ اکیلے جرمنی سے روانہ ہوئے اور انہوں نے اپنے پورے خاندان کے ہندوستان کے راستے امریکہ فرار ہونے کا بندوبست کیا۔ اُن کے دلیرانہ اقدامات سے اُن کا پورا خاندان کسی المیے کا شکار ہونے سے محفوظ رہا۔

سفیر گٹ مین نے کہا کہ ان کے والد کی میراث نے انہیں درس و تدریس کا شعبہ اختیار کرنے اور طلباء کو جمہوریت کے بارے میں تعلیم دینے کی طرف مائل کیا۔ اُن کے [والد] نے انہیں ہر قسم کے امتیازی سلوک کا مقابلہ کرنے کی ترغیب دی۔
گٹ مین نے کہا کہ “جب میں ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والوں سے ملتی ہوں، جب میں بیدردی سے قتل کیے جانے والوں کی یادگاروں پر جاتی ہوں تو مجھے اکثر [اپنے والد] کا خیال آتا ہے۔ مگر میں اُس کام کو بھی دیکھتی ہوں جو امریکہ اور جرمنی دونوں مل کر ہولوکاسٹ کی یاد کو زندہ رکھنے اور مستقبل میں اس طرح کے مظالم کو روکنے کے لیے کر رہے ہیں۔”
اوری ابرامو وِچ، امریکی سفارت خانہ پانامہ سٹی
اوری ابرامو وِچ کے دادا دادی ہولوکاسٹ سے بچ جانے والوں میں شامل تھے۔ مگران کے خاندان کے بہت سے افراد ہولوکاسٹ میں قتل ہوئے۔
ان کے دادا تھیوڈور “ٹیو” ابرامو وِچ 1901 میں پولینڈ میں پیدا ہوئے۔ جوانی میں وہ پیرس چلے گئے جہاں وہ درزی کا کام کرنے لگے۔ وہاں انہوں نے شادی کی اور اُن کے ہاں ایک بیٹی اور ایک بیٹا پیدا ہوئے۔
جولائی 1942 میں اس خاندان کے افراد کو پیرس سے نکال کر آشوٹز کے حراستی کیمپ میں بند کر دیا گیا۔ نازیوں نے ٹیو اور اس کے بیٹے کو، ٹیو کی بیوی اور بیٹی سے الگ کر دیا۔ اس دن کے بعد ٹیو نے اپنی بیوی یا بیٹی کو دوبارہ کبھی نہیں دیکھا۔ جب ان کا بیٹا شدید بیمار پڑ گیا تو ایک دن نازیوں نے اسے گیس چیمبر میں ڈال کر ہلاک کرنے کے لیے “منتخب” کر لیا۔

ٹیو کو بکِن والڈ حراستی کیمپ میں بھیج دیا گیا جہاں سے وہ فرار ہو گئے۔ وہ کئی ہفتوں تک جنگلوں میں چھپے رہے اور درختوں کی چھال کھا کر زندہ رہے۔ آخرکار انہیں ایک امریکی فوجی رجمنٹ کے جوان ملے جنہوں نے اُن کی جان بچائی۔ وہ پیرس واپس آئے اور انہوں نے ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والوں کی ایک ایسوسی ایشن اور ایک کنیسے کے سربراہ کے طور پر کام کیا۔ یہیں انہوں نے ہولوکاسٹ سے بچ جانے والی ایک ساتھی خاتون سے شادی کی۔
اوری ابرامو وِچ نے اپنے لیے فارن سروس کا انتخاب کیا اور اپنے بیٹے کا نام ٹیو کے درمیانی نام کی منسابت سے ‘ڈوو’ [Dov] رکھا۔
ابرامو وِچ کہتے ہیں کہ “ہولوکاسٹ میں قتل ہونے والے لاکھوں افراد کی یاد مجھے ایک بہتر اور زیادہ انصاف پسند دنیا کے لیے ہر روز کام کرنے پر مجبور کرتی ہے۔”
ڈینیئل ڈیوریز، امریکی سفار خانہ یروشلم
ڈیویز خاندان نے ‘کرسٹل ناخٹ’ [یہودیوں کے خلاف مظاہروں کے آغاز کی رات] کو اپنے خاندانی کاروبار پر ہونے والے حملے کے فوراً بعد جرمنی چھوڑ دیا۔ وہ ہالینڈ چلے گئے اور پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں رہ کر امریکہ جانے کے لیے منظوری کا انتظار کرنے لگے۔ مگر یہ منظوری کبھی بھی نہ آئی۔
نازیوں نے جلد ہی ہالینڈ پر حملہ کر دیا اور پناہ گزینوں کے کیمپ کو حراستی کیمپ میں تبدیل کر دیا۔ ڈینیئل ڈیوریز کے پردادا مورٹز پناہ گزینوں کے کیمپ میں انڈے بیچتے ہوئے پکڑے گئے۔ سزا کے طور پر نازیوں نے مورٹز اور اُن کی بیوی ایلا کو آشوٹز جانے والی ٹرین میں ڈال دیا۔ انہیں 1943 میں گیس کے ایک چیمبر ڈال کر قتل کر دیا گیا۔

آخرکار ڈینیئل کے والد رابرٹ ڈیوریز کو 1946 میں پناہ گزین کا درجہ ملا اور وہ 24 سال کی عمر میں نیویارک کے ایلس جزیرے پر پہنچے۔ وہ وہاں نہ تو کسی کو جانتے تھے اور نہ ہی انہیں انگریزی بولنا آتی تھی۔ وہ ڈیٹرائٹ چلے گئے۔ چند سالوں بعد اُنہوں نے شادی کرلی اور اُن کے دو بیٹے ہوئے۔ انہوں نے کاریں بنانے والی فیکٹری میں کام کیا اور کوریا کی جنگ کے دوران امریکی فوج میں خدمات انجام دیں۔
ڈیوریز کہتے ہیں کہ “مجھے امید ہے کہ میں عوامی خدمت کے ذریعے اپنے خاندان کے قرض کا کچھ حصہ اس ملک کو ادا کر سکوں گا جس نے ہمیں [یہاں] پھلنے پھولنے کے قابل بنایا۔ میری پیشہ ورانہ زندگی مجھے اُن امریکی اقدار کو فروغ دینے کے قابل بناتی ہے جنہوں نے میرے دادا اور بے شمار دوسرے لوگوں کے لیے نئی شروعات کو ممکن بنایا۔”
الزبتھ گیورز رامیرز، یو ایس ایڈ
ایڈولف ہٹلر کے جرمنی کا چانسلر بننے کے بعد 1933 میںالزبتھ گیورز رامیرز کے دادا دادی، ایلائی اور ٹلی گیورز نے فرینکفرٹ، جرمنی چھوڑ دیا۔ اِس جوڑے کا خیال تھا کہ ان کا اِس ملک میں کوئی مستقبل نہیں۔ انہوں نے اپنے رشتہ داروں کو بھی جرمنی چھوڑنے پر راضی کرنے کی کوشش کی مگر انہیں اِس میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ جوڑا فرار ہو کر سپین چلا گیا۔ انہوں نے ٹلی کے والدین کو بھی جرمنی سے نکلنے پر راضی کیا۔ ان سب نے بعد میں امریکہ میں سیاسی پناہ کی درخواست کی۔ اُن کا ایک کزن، فریڈ بیئر امریکی ریاست انڈیانا کے شہر ساؤتھ بینڈ میں وکیل کے طور پر کام کرتا تھا۔ اُس نے شہر کے میئر کو یہودی پناہ گزینوں کی کفالت کرنے پر آمادہ کیا۔ بعد میں بیئر نے نازی جنگی مجرموں کے نیورمبرگ میں چلائے جانے والے مقدمات میں وکیل استغاثہ کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔

اِس خاندان نے ساؤتھ بینڈ پہنچنے سے قبل چار برس تک ویزا ملنے کا انتظار کیا۔ ایلائی نے ساؤتھ بینڈ پہنچ کر کپڑے کی ایک دکان پر کام کرنا شروع کیا۔ حال ہی میں رامیرز وہ عمارت دیکھنے جرمنی گئیں جہاں ان کے دادا دادی رہا کرتے تھے۔ اُن کے زندہ بچ جانے کی کہانی سے رامیرز آج بھی حوصلہ پانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔
رامیرز کہتی ہیں کہ میری اُن سے جڑی یاد اور جس دربدری سے وہ گزرے اور ایک نئے اور غیر ملک میں دوبارہ زندگی شروع کرنے میں اُن کی ہمت اِس سب کچھ نے مجھے عوامی خدمت کے شعبے کا پیشہ اختیار کرنے کی ترغیب دی تاکہ بین الاقوامی سطح پر کام کرتے ہوئے عدم استحکام سے نمٹنے اور ملکوں کے اندر اور اُن کے مابین امن اور رواداری کو فروغ دیا جا سکے۔”
ہولوکاسٹ سے زندہ بچ جانے والوں کی محکمہ خارجہ میں کام کرنے والی اولادوں سے اُن کے بزرگوں کی کہاںیاں سنیں۔