گو کہ امریکہ اور بنگلہ دیش نے 2022 میں حکومتی تعلقات کے 50 سال کا جشن منایا مگر عوامی سطح کے روابط اس سے کہیں پیچھے تک جاتے ہیں۔
امریکہ کے آنجہانی سینیٹر ایڈورڈ ایم کینیڈی بنگلہ دیش کی 1971 کی آزادی کی تحریک کے بیباک حامی تھے۔ وہ بنگلہ دیش کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی سیاست دان تھے۔ وہ خصوصی بندھن آج بھی برقرار ہے۔

29 اکتوبر سے لے کر 6 نومبر تک کینیڈی خاندان کے بہت سارے افراد نے آنجہانی سینیٹر کے جمہوریت، امن اور انسانی حقوق کے ورثے کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے بنگلہ دیش کا دورہ کیا۔
آنجہانی سینیٹر کے بیٹے اور آنجہانی امریکی صدر جان ایف کینیڈی کے بھتیجے ایڈورڈ ایم “ٹیڈ” کینیڈی جونیئر نے کہا کہ “یہ واضح ہے کہ ہمارے دونوں ممالک کے درمیان شراکت ایک شاندار کامیابی ہے۔”

کینیڈی جونیئر نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں اُسی جگہ پر تقریر کی جہاں اُن کے والد نے 14 فروری 1972 کو اسی ہزار طلباء کے سامنے تقریر کی تھی۔
اُس وقت سینیٹر ایڈورڈ کینیڈی نے طلباء کو بتایا کہ “آپ کو علم ہے کہ گو کہ بعض حکومتیں آپ کو تسلیم نہیں کرتیں مگر دنیا کے لوگ آپ کو تسلیم کرتے ہیں اور وہ اُس کو تسلیم کرتے ہیں جو آپ نے یہاں ظلم اور جبر سے آزادی کے نام سے حاصل کیا ہے۔”
کینیڈی جونیئر نے اپنے والد کی پریس کی آزادی، ظلم و زیادتیوں سے آزادی اور حقِ رائے دہی سے محروم لوگوں کے حقوق کے ساتھ اُن کی وابستگی کا ذکر کیا۔
کینیڈی جونیئر نے برگد کے اُسی درخت کے نیچے بیٹھ کر ڈھاکہ ٹربیون کو بتایا جو اُن کے والد نے 1972 میں لگایا تھا کہ “میرے والد اس بات پر پختہ یقین رکھتے تھے کہ جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہوتا ہے۔ برگد کا درخت امریکہ اور بنگلہ دیش کے تعلقات کی علامت ہے۔
کینیڈی جونیئر کے 2022 کے اِس دورے کے دوران اُن کے ہمراہ اُن کی اہلیہ، کیتھرین “ککی” کینیڈی، بیٹی، کیلی کینیڈی، بیٹا، ٹیڈی کینیڈی، بھانجی گریس کینیڈی ایلن اور بھانجے میکس ایلن بھی بنگلہ دیش گئے تھے۔ مختلف مقامات اور سکولوں میں اِس خاندان کے افراد نے مجموعی طور پر تقریباً 800 طلباء سے خطاب کیا۔

اپنے دورے کے دوران کینیڈی اور اُن کے خاندان کے افراد نے وزیر اعظم شیخ حسینہ سے اُن کی سرکاری رہائش گاہ ‘گونو بھبن’ میں ملاقات کی۔ اِس ملاقات کے دوران انہوں نے امریکہ اور بنگلہ دیش کے درمیان 50 سالہ دوستی کے بارے میں گفتگو کی۔
ڈھاکہ میں قائم ایڈورڈ ایم کینیڈی سنٹر برائے خدمت خلق و آرٹس کے اپنے دورے کے دوران کینیڈی جونیئر نے معذوروں کی شمولیت کو “استحقاق نہیں بلکہ ایک حق” قرار دیا۔ انہوں نے بچپن میں ہڈی کے کینسر سے صحت یاب ہونے اور اس دوران اپنی ٹانگ کے کاٹے جانے کے اپنے احوال کے بارے میں بھی بات کی۔
انہوں نے بتایا کہ “جب ڈاکٹروں نے مجھے بتایا کہ وہ میری ٹانگ کا ایک حصہ کاٹ کر علیحدہ کرنے لگے ہیں تو میں نے سوچا کہ میری زندگی ختم ہونے والی ہے۔” اس کے برعکس انہوں نے تعلیم حاصل کی اور وکیل بنے اور معذوریوں کے حامل افراد کے لیے مواقع میں اضافہ کرنے کی مہم کے ایک پرزور حامی بنے۔

انہوں نے کہا کہ “یہ معذوریت کے بارے میں سماجی رویہ ہے جو حقیقی معنوں میں معذوریت کو جنم دیتا ہے۔”
ای ایم کے سنٹر میں کینیڈی اور امریکی سفیر پیٹر ڈی ہاس نے آرٹ کی ایک نمائش کا بھی افتتاح کیا جس میں فلبرائٹ پروگرام کے بنگلہ دیشی اور امریکی شرکاء کے مابین گزشتہ 50 برسوں پر پھیلی باہمی شراکت کاری کو اجاگر کیا گیا ہے۔ فلبرائٹ پروگرام امریکی حکومت کا تعلیمی تبادلے کا ایک مایہ ناز پروگرام ہے۔