‘ ڈریم چیزر’ نامی امریکہ کا بنایا ہوا خلائی جہاز، ایک دن خلابازوں اور سازوسامان کو لے کر خلا میں جائے گا۔ اس کوشش کے پیچھے ایک کاروباری خاتون، ایرن اوزمین کا نمایاں کردار ہے۔

اوزمین، ڈریم چیزرکی تیاری میں مصروف خلائی ٹیکنالوجی پر کام کرنے والے ادارے ‘ سیرا نیواڈا کارپوریشن’ کی شریک مالکہ اور صدر ہیں۔ ڈریم چیزر جہاز ایک ہمہ گیر طرز کی خلائی شٹل ہو گا۔

اوزمین نے ہمیشہ سخت محنت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے، ” میرے بچپن نے مجھ میں زندگی بھر کے لیے یہ خواہش پیدا کی کہ میں دنیا پر [مثبت] اثر ڈالوں اور اسے بہتر بنا ؤں۔”

Headshot of Eren Ozmen (Sierra Nevada)
ایرن اوزمین۔ (Sierra Nevada)

وہ کہتی ہیں کہ ترکی میں اِن کی  پرورش اور تعلیم و تربیت کی اُن کے نزدیک بہت اہمیت ہے۔ نوجوانی میں وہ دن کے وقت ایک بینک میں کام کرتیں اور رات کو سکول جاتی تھیں۔ امریکہ آنا ان کا خواب تھا۔

1980ء  کے اوائل میں اوزمین، یونیورسٹی آف نیواڈا، رینو سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے لیے ترکی سے امریکہ آ گئیں۔

اوزمین  کا کہنا ہے کہ ” میں اپنے اہلخانہ کے بے حد قریب تھی۔ میرے لیے گھر چھوڑنا بہت مشکل تھا مگر میں اپنے امریکی خواب کی تعبیر چاہتی تھی۔”

کمپنی کا قیام

اوزمین اور ان کے شوہر فتح نے، 1994 میں سیرا نیواڈا کمپنی کی ملکیت حاصل کی اور اسے خلا، ہوابازی اور الیکٹرانکس کے میدان میں ممتاز عالمی ادارہ بنا دیا۔ ان دونوں میاں بیوی کی سرکردگی میں سیرا نیواڈا کارپوریشن 20 لوگوں پر مشتمل کمپنی سے ترقی کرتی ہوئی اربوں ڈالر کی ایک عالمی کمپنی بن چکی ہے جو اب چار ممالک اور 18 ریاستوں میں کام کر رہی ہے اور اس میں تین ہزار سے زائد لوگ ملازم ہیں۔

فاسٹ کمپنی‘ کی جانب سے ترقی کی منزلیں طے کرنے والی اس کمپنی کو خلائی شعبے میں کام کرنے والی سب سے زیادہ جدت طراز کمپنیوں میں شامل کیا گیا۔

نیویارک کی کارنیگی کارپوریشن نے اوزمین کو اُن عظیم تارکین وطن کی فہرست میں شامل کیا ہے جو ” ہمارے سماج، ثقافت اور معیشت کی ترقی میں مدد دے رہے ہیں۔”  ‘  امریکہ کا ترک ‘  نامی رسالے نے با اثر ترین ترک امریکی خواتین کی 30 رکنی فہرست میں اوزمین کا نام دوسرے نمبر پر شامل کرتے  ہوئے لکھا ہے کہ وہ ” خواتین ترک – امریکی کاروباری شخصیات کے لیے ایک حقیقی رول ماڈل ہیں۔”

رواں سال فوربز نے اوزمین کو ذاتی جدوجہد کے بل بوتے پر کامیابی حاصل کرنے والی امریکہ کی امیر ترین خواتین میں شامل کیا۔ اس فہرست میں ان کے ساتھ اوپیرا وِنفری اور بیونسے نوولز جیسی مشہور شخصیات شامل ہیں۔ اوزمین کا کہنا ہے کہ اس فہرست میں شمولیت قدرے مسحور کن بھی ہے۔

اوزمین اور ان کے شوہر نئی کمپنیوں کی اپنے پاوًں پر کھڑا ہونے میں مدد کرنے کو ترجیح دیتے ہیں جس کے لیے وہ یونیورسٹی آف نیواڈا میں اوزمین مرکز برائے کارباری نظامت کاری کی مالی سرپرستی کرتے ہیں۔ یہ مرکز طالبعلموں اور یونیورسٹی کے اساتذہ کے نئے خیالات اور نئے کاروباروں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

اوزمین کہتی ہیں، ” امریکہ نے فتح، مجھے اور ہمارے اہلخانہ کو جو مواقع  فراہم کیے ہیں اُن پر میں اس ملک کی انتہائی انکساری سے  بے حد شکرگزار ہوں اور میں نوجوانوں کی اپنی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانے میں مدد کرنا چاہتی ہوں۔”

اگلا محاذ

اوزمین کی کمپنی ڈریم چیزر [خلائی جہاز] کے ذریعے عالمی خلائی سٹیشن پر سازوسامان  پہنچانے کے لیے امریکی خلائی تحقیقاتی ادارے ناسا کے ساتھ کام کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ  ساتھ یہ ادارہ ترقی پذیر ممالک کو خلا میں تجربات کے مواقع فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے تعاون سے2021ء  تک ایک خلائی مشن شروع کرنے پر بھی عمل پیرا ہے۔

اوزمین کہتی ہیں، ” فتح اور میں نے اوائل عمری میں خلائی سفر کا خواب دیکھا تھا۔” آج وہ یہ دیکھ کر خوش ہوتی ہیں کہ اب ان کے لیے بہت سے دوسرے لوگوں کو بھی اس خواب میں شامل کرنا ممکن ہو گیا ہے۔