خلائی دوربین ہبل سے خود کو تباہ کرنے والے نایاب سیارچے کی عکس بندی

دوسری رصد گاہوں کے تعاون اور ناسا کی خلائی دوربین ہبل کی عکس بندی کی جدید صلاحیتوں کی بدولت فلکیات کے ماہرین اس قابل ہوئے کہ وہ دور آسمان میں موجود ایک نایاب اور خوبصورت چیز کی نشاندہی اور اس کی تفصیل بیان کرسکیں۔ یہ چیز ایک متحرک سیارچہ  ہے جو ٹوٹنے کے عمل سے گزر رہا ہے۔

اوپر دکھائے گئے اِس سیارچے کا نام 6478 گالٹ ہے۔ اس میں چمکدار ستاروں میں گھری، دمدار ستارے کی طرح دو مختصر دُمیں نظر آرہی ہیں۔ خلائی دنیا میں یہ سورج سے کم و بیش 344 ملین کلومیٹر دور مریخ اور مشتری کے مداروں کے درمیان واقع ہے۔

جرمنی میں واقع یورپ کی جنوبی رصدگاہ سے تعلق رکھنے والے اولیور ہیناٹ، گالٹ کی مشاہدہ کرنے والی ٹیم کے ایک رکن ہیں۔ ان کا کہنا ہے، “آج گالٹ جیسے متحرک اور غیرمستحکم سیارچوں کا  پتہ چلانے کے لیے سروے دوربینوں کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ گالٹ جیسے درست سمت میں نہ چلنے والے سیارچے اب نظروں سے نہیں بچ سکیں گے۔”

ناسا کے مطابق تمام خلائی مشاہدات، زمین پر لگی ہوئی دوربینیں، ہبل خلائی دوربین جیسی خلا میں موجود سہولیات، سب کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کی وجہ سے اس شہابیے کی دریافت ممکن ہوسکی۔ یہ ناسا اور یورپی خلائی ایجنسی  کا ایک مشترکہ پراجیکٹ ہے۔

1988ء  میں دریافت ہونے والا گالٹ کئی ملین سال پرانا ہے۔ جلد ہی اس کا سیاروی سفر ختم ہو جائے گا۔

ناسا کے مطابق گالٹ دوسرا ایسا سیارچہ ہے جس کی ٹوٹ پھوٹ کے  عمل کو ‘ وائی او آر پی اثر’ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے۔ (وائی  او آر پی “یارکوفسکی-اوکیف-راجیوسکی- پیڈک” نامی اُن چار سائنسدانوں کے ناموں کے پہلے حروف ہیں جنہوں نے سب سے پہلے یہ تصور پیش کیا تھا۔) سیارچے پر تودوں کے گرنے کی وجہ سے گرد اور ملبہ خلا میں گر رہا ہے جس کی وجہ سے گالٹ پر نظر آنے والی گرد کی دو علیحدہ دمیں دکھائی دیتی ہیں۔ گاہے بگاہے ہونے والی یہ ٹوٹ پھوٹ سال میں تقریبا ایک بار وقوع پذیر ہوتی ہے۔

ہبل اور دیگر خلائی دوربینوں کے استعمال سے دموں پر گرد اور ملبے کے ذرات کا قریبی معائہ کرنے کے بعد محققین اُن علامات کو ڈھونڈتے ہیں جن کا تعلق شمسی نظام کے ابتدائی دنوں میں سیاروں کے وجود میں آنے سے ہوتا ہے۔

گالٹ کی بقیہ زندگی سے مزید علامات اکٹھی کرنے کے لیے اس کی کڑی نگرانی اور معائنہ کیا جا رہا ہے۔