امریکی مسلح افواج کے تمام شعبوں میں عورتیں جو اہم کردار ادا کر رہی ہیں اُن میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے سال 2020 میں ایک اور سنگ میل عبور کر لیا۔
جولائی میں نیشنل گارڈ کی ایک خاتون سپاہی خصوصی کاروائیوں کے تربیتی کورس میں شرکت کرنے اور عملی کاروائیاں کرنے والی ٹیم میں شامل ہونے والی اولین خاتون بن گئیں۔ ایسا 2015ء میں جنگی کاروائیوں میں (خواتین فوجیوں کی) شرکت پر عائد پابندیوں کے خاتمے کے بعد ممکن ہوا۔ وہ جدید “سپیشل فورسز کوالی فکیشن کورس” کی اولین گریجوایٹ بھی ہیں۔ وہ فوج کے مایہ ناز یونٹ، “گرین بیرے” (سبز ٹوپیوں والوں) میں شامل ہوں گی۔ خصوصی تربیت کا حامل یہ یونٹ بیرونی ممالک میں حساس مشن مکمل کرنے کا ذمہ دار ہوتا ہے۔
فضائی فوج کی ریٹائرڈ جنرل، لوری رابنسن نے بروکنگز انسٹی ٹیوشن کے لیے ایک رپورٹ میں لکھا، “فوج میں ترقی حقیقی معنوں میں قابلیت کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ ہم سب یکساں مواقعوں کے تحت ایک ہی جیسا حلف اٹھا کر (اپنی پیشہ وارانہ زندگیوں) کا آغاز کرتے ہیں۔”
رابنسن کسی لڑاکا فوجی یونٹ کی کمانڈ کرنے والی پہلی خاتون ہونے کے ساتھ ساتھ امریکی فضائیہ کے جنگی ہتھیاروں کے سکول کی پہلی خاتون انسٹرکٹر بھی بنیں۔ انہوں نے امریکہ کی شمالی کمانڈ کی سربراہی اور شمالی کوریا کے 2017ء کے بحران کے دوران شمالی امریکہ کی خلائی دفاع کی کمانڈ کی سربراہی کی۔
انہوں نے کہا، “ماضی کے کسی بھی دور کے مقابلے میں، آج فوج صنفی خطوط پر زیادہ مربوط ہے۔ عورتوں کو کسی بھی نوعیت کے جنگی مشن سے اب باہر نہیں رکھا جاتا۔”
بری فوج کی جنرل این ڈن وڈی 2008ء میں چار ستارہ جنرل بنیں۔ اس کے بعد سے اب تک چار دیگر خواتین بھی اس عہدے پر پہنچ چکی ہیں۔

امریکی فوج کی سارجنٹ میجر، ٹرے بیئن ایڈمز نے کہا، “خواتین کو رینجر سکول [سے] گریجوایٹ کرتا ہوا یا پیدل فوج کی بنیادی تربیت [مکمل] کرتا ہوا اور کامیاب ہوتا ہوا دیکھنا، حیرت انگیز بات ہے اور میں عورتوں کو فوج میں جو کچھ آج حاصل کرتا ہوا دیکھتی ہوں اُس سے میرے دل میں ایک جذبہ پیدا ہوتا ہے۔” ایڈمز نے یہ باتیں “عورتوں کے مساوات کے دن” کے موقع پر تحریر کیے جانے والے ایک مضمون کے سلسلے میں کیں۔ وہ حال ہی میں یورپ میں دانتوں کی صحت سے متعلق کمانڈ میں سینیئر حاضر سروس لیڈر کے طور پر خدمات انجام دے چکی ہیں،
پہلی عالمی جنگ میں تقریباً 22,000 عورتوں نے بری اور بحری افواج میں نرسنگ کے شعبے میں نرسوں یا اعانتی عملے کے طور پر خدمات انجام دیں۔ اس کے علاوہ 11,000 عورتیں بحری فوج میں سٹینو گرافروں، کلرکوں، ریڈیو آپریٹروں، قاصدوں، ٹرک ڈرائیوروں، اسلحہ سازی کے کارکنوں، مکینکوں اور خفیہ زبان میں پیغام بھجوانے اور موصول کرنے والوں کے طور پر بھرتی ہوئیں۔
دوسری عالمی جنگ میں 350,000 عورتوں نے فوج کی عورتوں کی کور اور بحریہ کی “ہنگامی خدمات کے لیے بھرتی کی جانے والی خواتین رضاکار سروس” (ڈبلیو اے وی ای ایس) میں خدمات انجام دیں۔ 1970 کی دہائی میں فضائی اور بحری افواج میں عورتوں کی تعداد کے مقابلے میں آج یہ تعداد پانچ گنا زیادہ ہے جبکہ بری فوج میں اسی مدت کے دوران اس تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے۔
میرین کور کی کرنل ایمی ایبٹز نے بروکنگ انسٹی ٹیوشن کے لیے تحریر کیے گئے ایک مضمون میں لکھا، “مسلح افواج ‘ ایک جیسے کام کے لیے ایک جیسی تنخواہ’ کی مکمل عملی صورت پیش کرتی ہیں۔ صنف سے قطع نظر، آپ کی تنخواہ اور اُن لوگوں کی تنخواہ برابر ہو گی جن کی مدت ملازمت اور تعلیمی قابلیت آپ جتنی ہوگی۔”

صدر ہیری ٹرومین نے 12 جون 1948 کو مسلح افواج میں عورتوں کی شمولیت کے قانون پر دستخط کیے۔ اس قانون کے تحت عورتیں صرف جنگ کے زمانوں ہی میں نہیں بلکہ عام حالات میں بھی مسلح افواج کی باقاعدہ رکن بن گئیں۔ تاہم اس قانون کی شق 502 کے تحت اُن کی خدمات کو کسی ممکنہ جنگی لڑائی کی وجہ سے بحریہ کے ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں کو نکال کر محدود کیا گیا۔ 2015ء میں عورتوں کو جنگی فرائض سمیت تمام حیثیتوں سے مسلح افواج میں خدمات انجام دینے کی اجازت دے دی گئی۔
سارجنٹ میجر ٹرے بیئن ایڈمز نے بتایا کہ وہ ایک اور فوجی خاتون، کمانڈ سارجنٹ میجر ٹابیٹا گاویا سے متاثر ہوئیں جو حال ہی میں امریکی فوج کی بھرتی کی کمانڈ میں کمانڈ سارجنٹ میجر کے طور پر فرائض سرانجام دے چکی ہیں۔
ایڈمز نے کہا، “اگر آپ اس کا خواب دیکھ سکتی ہیں، اگر آپ یہ کر سکتی ہیں، تو پھر اس کی کوشش کریں۔ آپ کو اس بات پر خوشی ہوگی کہ آپ کیا کچھ حاصل کر سکتی ہیں اور کتنی کامیاب ہو سکتی ہیں۔”