نیشنل فٹبال لیگ (این ایف ایل) کے سال 2021 کے سیزن کا آغاز ستمبر میں ہونے جا رہا ہے۔ اس سیزن میں 12 خواتین کوچوں کی حیثیت سے شرکت کریں گیں۔ خواتین کوچوں کا اتنی بڑی تعداد میں ہونا ایک ریکارڈ ہے۔
خواتین کوچوں کی تعداد میں یہ اضافہ این ایف ایل کی ان کاوشوں کی عکاسی کرتا ہے جن کا مقصد مردوں کی اکثریت والے امریکی فٹبال کے اس کھیل میں خواتین کو زیادہ سے زیادہ مواقع فراہم کرنا ہے۔ این ایف ایل نے 2017 میں خواتین کے مستقبل کے لیے “ویمن فٹبال فورم” قائم کیا تھا جس کے ذریعے اس کھیل میں خواتین کو کل وقتی ملازمتوں کی اسامیوں پربھرتی کیا جاتا ہے۔
میڈیا کی حالیہ رپورٹوں کے مطابق پروگرام شروع ہونے کے بعد سے اب تک ایک سو خواتین کو این ایف ایل کی نوکریاں دیں گئی ہیں اور درجنوں خواتین کو ہائی سکول یا کالج کی سطح پر فٹبال سے متعلقہ شعبوں میں ملازمتوں پر رکھا گیا ہے۔ 2021 میں فٹبال فورم میں خواتین کے شعبوں میں شرکت کرنے والی خواتین میں سے چھیالیس خواتین نے پیشہ ورانہ یا کالج کی سطحوں پر ملازمتیں حاصل کیں۔
اس وقت خواتین این ایف ایل کے انتظامی دفتر میں 38 فیصد اسامیوں پر کام کر رہی ہیں جبکہ دو خواتین لیگ میں ریفری کے طور پر کام کر رہی ہیں۔
این ایف ایل کے تنوع، مساوات اور شمولیت سے متعلقہ امور کے سینئر ڈائریکٹر، سیم ریپوپورٹ نے سی این بی سی کو بتایا، “ہمارے پاس کم وبیش ہر سطح پر خواتین کام کر رہی ہیں، ماسوائے اعلیٰ ہیڈ کوچ اور [جنرل منیجر] کے عہدوں پر [اور ان پر بھی عورتیں] جلد ہی آ جائیں گیں۔”

کِم اِنگ نومبر 2020 میں بیس بال کی بڑی لیگ کی پہلی خاتون جنرل منیجر بنیں۔ میامی مارلنز نامی ٹیم میں سب سے بڑے عہدے کی ذمہ داریاں سنبھالتے ہوئے، بیس بال کی تاریخ میں انگ نے سب سے اونچے عہدے پر فائز ہونے والی پہلی ایشیائی نژاد امریکی فرد کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
دفاعی چیمپئن “ٹمپا بے بکنیئرز” نامی ٹیم این ایف ایل کی واحد ٹیم ہے جس میں مرال جوادیفر سمیت دو خواتین کوچز ہیں۔ جوادیفر پیشے کے لحاظ سے فزیکل تھیراپسٹ ہیں اور وہ ٹیم کی طاقت اور ورزش کی اسسٹنٹ کوچ ہیں۔
بکنیئرز کے ہیڈ کوچ بروس ایرینز نے این ایف ایل کی ایک ویڈیو میں کہا، “ہم اپنی کھیلوں کے سائنس پروگرام کے لیے جن اہلیتوں کی تلاش میں تھے وہ تمام اُن [جوادیفر] میں بدرجہ اتم موجود ہیں۔ وہ کھیلوں کا پس منظر رکھتی ہیں۔ وہ باسکٹ بال کی کھلاڑی ہیں۔ انہیں [کھیل کے میدان سے باہر کھلاڑیوں] کے تربیتی ماحول کا علم ہے۔ “