آج کی خواتین، بڑی کمپنیوں کو چلا سکتی ہیں، فوج میں خدمات انجام دے سکتی ہیں اور سرکاری عہدوں پر کام کر سکتی ہیں۔ لیکن ان مواقع کے لیے وہ اپنے پیشروؤں کی مرہون منت ہیں جنہوں نے تعلیم، ایک ہی جیسے کام کے لئے مساوی تنخواہ، اور سب سے اہم بات حقِ راۓ دہی حاصل کرنے کے لیے جد وجہد کی۔ خواتین کے حقوق کے لیے 23 اکتوبر، 1850 کو وارسیسٹر، میسا چوسٹس میں منعقد ہونے والے پہلے قومی کنونشن نے یہ واضع کر دیا تھا کہ خواتین کے حقوق کا نصب العین، ایک قومی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کر سکتا ہے۔
مقررین میں انسدادِ غلامی کی حامی سوجورنر ٹروتھ، عورتوں کے حقِ راۓ دہی کی حامی لوسی سٹون اور معالج ہیرییٹ ہنٹ شامل تھیں، جن کو انکی صنف کی وجہ سے ہارورڈ میڈیکل سکول میں داخلہ دینے سے انکار کر دیا گیا تھا۔ مندوبین نے ایک قرارداد منظور کی جس میں “، سیاسی، قانونی، اور مردوں عورتوں کے درمیان سماجی مساوات” کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

سال کے اندر اندر، وائیومنگ کے علاقے میں انکی تمام 000،1 عورتوں کو ووٹ دینے کا حق دے دیا گیا۔ 6 ستمبر 1870 کو، لیرامی سے تعلق رکھنے والی لوئیسا این سووین، خمیر کا ایک ڈبہ خریدنے کے لئے جا رہی تھیں۔ وہ راستے میں ایک پولنگ سٹیشن پر رُکیں اور امریکہ کے عام انتخابات میں اپنا ووٹ ڈالا۔ اس طرح وہ امریکہ میں ووٹ ڈالنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔
20ویں صدی کے اختتام تک، بہت سی ریاستوں میں، جن میں زیادہ تر مغربی امریکہ میں واقع تھیں، خواتین کو بلدیاتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دے دی گئی۔ 1920 ء میں امریکی آئین کی 19ویں ترمیم کے تحت اُن تمام خواتیں کو حق رائے دہی حاصل ہو گیا جوعمر کے لحاظ سے ووٹ ڈالنے کی اہل تھیں۔
سیاسی انتخابات میں خواتین کے حقِ راۓ دہی کی حمایت کرنے والی ایک ممتاز خاتون، ایلس پال نے تحریک کی کامیابی کی یوں وضاحت کی: “میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا ہے کہ تحریک ایک قسم کی پچی کاری ہوتی ہے۔ ہم میں سے ہر فرد ایک چھوٹی سی کنکری لگاتا ہے اور تب کہیں جا کر آخر میں یہ تصویر مکمل ہوتی ہے۔”