Women posing for a selfie with the Washington Monument in the background (State Dept./Candice Helton)
S/GWI photographed with several Tech Women participants

جب کووڈ-19 وبا کا پہلا حملہ ہوا تو تیونس کی فتن خلف اللہ نے چہرے پر لگانے والے ماسک اور گاؤن جیسی ذاتی حفاظت کی جتنی اشیا وہ تیار کر سکتی تھیں اتنی تیار کرنے کے لیے تھری ڈی پرنٹنگ کا استعمال کیا تاکہ وہ مقامی ہسپتالوں میں اِن اشیا کی کمی کو پورا کر سکیں۔

 سبین کائے (Courtesy of Sabine Kai)
(Courtesy of Sabine Kai)

2020 میں بیروت کی بندرگاہ پر ہونے والے دھماکے کے بعد مکینیکل انجنیئر، سبین کائے نے اپنی سرپرست ہارڈ ویئر انجینئر، ربیکا بسواس کے ساتھ مل کر طلباء اور اساتذہ کو لیپ ٹاپ، پڑھنے کے لیے ایک پرسکون جگہ اور انٹرنیٹ تک رسائی فراہم کرنے کا کام کیا تاکہ طلبا اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔ کائے اور بسواس “جونیپر نیٹ ورکس” نامی کمپنی میں کام کرتی ہیں۔

مذکورہ بالا دونوں خواتین کا شمار محکمہ خارجہ کے تبدیلیاں لانے والے تبادلے کے “ٹیک ویمن“نامی پروگرام کے 1,000 سے زائد سابقہ شرکاء میں ہوتا ہے۔ اس پروگرام کو شروع ہوئے یہ دوسرا عشرہ چل رہا ہے۔

وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 20 اکتوبر کو کہا کہ “یہ اور سینکڑوں دیگر خواتین جن کی ‘ویمن ٹیک’ [پروگرام کے تحت] اگلی دہائی میں مدد کی جائے گی اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کے لیے اختراعی طریقے اختیار کرنا جاری رکھیں گی۔”

Since TechWomen began in 2011, the program has grown beyond its original focus on the Middle East and North Africa to include sub-Saharan Africa and South and Central Asia.

جب 2011 میں ٹیک ویمن پروگرام کا آغاز ہوا تو اس کی بنیادی توجہ کا مرکز مشرق وسطٰی اور شمالی افریقہ کے ممالک تھے۔ مگر بعد میں اس پروگرام میں زیریں صحارا اور جنوبی اور وسطی ایشیا کے ممالک کو بھی شامل کر لیا گیا۔

اور اب اس پروگرام کی پہنچ کو مزید بڑہایا جا رہا ہے۔ وزیر خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ ٹیک ویمن پروگرام کو بلقان کے ممالک تک پھیلایا جا رہا ہے۔ اس کی ابتدا البانیہ اور مونٹی نیگرو سے کی جائے گی۔ اس کے علاوہ اس میں امریکہ کے اہم شہرشکاگو کو بھی شامل کیا جائے گا تاکہ شہر کے ٹکنالوجی کے ترقی یافتہ شعبے سے فائدہ اٹھایا جا سکے۔

بلنکن نے محکمہ خارجہ کی طرف سے اٹھائے جانے والے مندرجہ ذیل اقدامات کا اعلان بھی کیا:-

  • “ٹیکنالوجی میں خواتین” کے موضوع پر چوٹی کا پہلا عالمی اجلاس: اس اجلاس میں سابقہ شرکاء اور اُن کے امریکی سرپرستوں کو اکٹھا کیا جائے گا۔ اس کا اختتام سابقہ شرکاء کی اختراعات میں اُن کی مدد کرنے کی خاطر امداد کی شکل میں بنیادی فنڈنگ کے لیے ایک مقابلے کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔
  • ٹیک ویمن اور ٹیک گرلز کے درمیان تعلق کو مضبوط بنایا جائے گا جس کے لیے اہل قرار پانے والی ٹیک گرلز کی سابقہ شرکاء کے لیے ٹیک ویمن کی کچھ اسامیاں مختص کی جائیں گیں۔ ٹیک گرلز  15 اور 17 سالہ لڑکیوں کے لیے محکمہ خارجہ کا تبادلے کا ایک علیحدہ پروگرام ہے۔
  • ٹیک ویمن کی مہارتوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے  مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ، جنوبی اور وسطی ایشیا اور افریقہ کے زیریں صحارا کے ممالک میں تین علاقائی “NextGen TechCamps” کے نام سے جدید ٹیکنالوجی کے ٹیک کیمپ قائم کیے جائیں گے۔

جنوبی افریقہ کی ٹیک ویمن کی سابق طالبہ، لنڈیوے میٹلالی یہی کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے “افریقہ ٹین گیکس” کے نام سے ایک  غیرمنفعتی ادارے کی بنیاد رکھی جس نے حکومت کے محکمہ تعلیم کے ساتھ مل کر سکول کا ایک ایسا نصاب تیار کیا جس کے تحت آٹھ لاکھ طلبا کو کوڈنگ، روبوٹکس اور دیگر ٹیکنالوجی سے متعارف کرایا گیا۔

بلنکن نے اس پروگرام کے بارے میں کہا کہ “جب سے یہ پروگرام شروع ہوا ہے تب سے یہ طلباء کو ایسی مہارتیں حاصل کرنے میں مدد کر رہا ہے جو انہیں 21ویں صدی کی ملازمتوں کے لیے زیادہ مسابقتی بنائیں گیں۔”

کینیا کی ٹیک ویمن کی سابق طالبہ نورہ مجیرو نے کہا کہ انہوں نے ہمیشہ ذہن میں یہ بات رکھی کہ ٹیکنالوجی کی چوٹی کی عالمی کمپنیوں کی قیادت کرنے والی خواتین کے پاس ایسی مہارتوں کا حامل ہونا ضروری تھا جو اُن [مجیرو] کی صلاحیتوں کے مقابلے میں قطعی طور پر مختلف تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ “ٹیک ویمن نے مجھے خواتین رہنماؤں کے نیٹ ورک سے متعارف کرایا جس سے مجھے یہ جاننے میں مدد ملی کہ مجھے صرف اپنی ذات پر اعتماد کرنے کی ضرورت ہے۔”