ایک تصویری خاکے میں دکھایا گیا ہے کہ پتلی تماشے کی طرح کے ان دھاگوں کو کوئی شخص کاٹ رہا ہے جن سے دنیا بندھی ہوئی ہے۔ (State Dept./Doug Thompson)
(State Dept./Doug Thompson)

ستمبر 2018 میں صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں کہا، “خود مختار اور آزاد اقوام ہی وہ واحد وسیلہ ہیں جن کی وجہ سے آزادی ہمیشہ قائم رہی، جمہوریت ہمیشہ سرخرو ہوئی اور امن ہمیشہ پروان چڑھا۔ لہذا ہمیں سب سے بڑھکر ہرصورت میں اپنی خود مختاری اور اپنی پیاری آزادی کی حفاظت کرنا چاہیے۔”

خود مختار اقوام کا احترام ہمیشہ سے امریکی جمہوریت اور دنیا بھر کی جمہوریتوں کی ایک بنیادی خصوصیت چلی آ رہی ہے تاہم یہ ایک ایسا تصور ہے جسے اکثر غلط سمجھا جاتا ہے۔

خود مختاری کیا ہے؟

ہڈ سن انسٹی ٹیوٹ کے سکالر جان فونٹے کا کہنا ہے کہ خودمختاری کا ” خلاصہ [انگریزی کے] دو الفاظ ہیں: کون حکومت کرتا ہے؟ کیا یہ عوام ہیں؟ کیا یہ کوئی غیر ملکی طاقت ہے؟ جب صدر خودمختاری کی بات کر رہے ہوتے ہیں تو وہ اسی کی یعنی عوام کی حکوموت کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔ وہ عوام کی اپنے تئیں حکمرانی کرنے — اور ہر ایک قوم کی اپنے تئیں حکمرانی کرنے کی بات کر رہے ہوتے ہیں۔”

امریکہ میں یہ تصور ملک کے قیام کے وقت سے قائم چلا آ رہا ہے۔ آزادی کا منشور اس بات پر زور دیتا ہے کہ حکومتیں “رعایا کی مرضی سے” منصفانہ اختیارات حاصل کرتی ہیں۔ امریکہ میں ووٹر ان لیڈروں کا انتخاب کرتے ہیں جنہیں وہ یہ اختیارات سونپتے ہیں۔ لوگ یہ اختیار واپس بھی لے سکتے ہیں۔

صدر ابراہام لنکن نے اسے “عوام کی حکومت، عوام کی طرف سے کی جانے والی حکومت، اور عوام کے لیے حکومت” کا نام دیا تھا۔

وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 2018 میں جرمن مارشل فنڈ میں اپنے خطاب میں کہا کہ اگرچہ قومیں مشترکہ مقاصد کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیموں میں شمولیت اختیار کر سکتی ہیں، تاہم کوئی چیز جمہوری آزادیوں اور قومی مفادات کے ضامن کے طور پر  کسی قومی مملکت کا متبادل نہیں بن سکتی۔ اگر یہ تنظیمیں خود مختار قوموں کے اختیارات غصب کرنے لگیں تو خود مختاری کے مسائل پیدا ہونے لگتے ہیں۔

اسی طرح کی ایک مثال جرائم سے متعلق بین الاقوامی عدالت ہے۔ اس عدالت نے ان ممالک کے شہریوں کو بھی اپنے دائرہ کار میں لانے کی کوشش کی ہے جو ممالک اس عدالت کے  قانون سے اتفاق نہیں کرتے۔ دیگر وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے جس کی بنیاد پر صدر ٹرمپ نے اقوام متحدہ کو بتایا، “ہم امریکہ کی خود مختاری سے کسی غیر منتخب، ناقابل احتساب افسر شاہی کے حق میں کبھی بھی دستبردار نہیں ہوں گے۔”

مائیک پومپیو سٹیج پر کھڑے ہیں اور ان کی دونوں جانب امریکی پرچم ہیں۔ (State Dept.)
وزیر خارجہ مائیک پومپیو 4 دسمبر 2018 کو برسلز میں ‘امریکہ کے جرمن مارشل فنڈ’ میں تقریر کر رہے ہیں۔ (State Dept.)

ہیری ٹیج فاؤنڈیشن کے فیلو، تھیوڈور برومنڈ کہتے ہیں کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ “کیا ریاستوں کو اس تنظیم پر اختیار حاصل ہوتا ہے یا اس تنظیم کو ریاستوں پر اختیار حاصل ہوتا ہے؟”

جرمن مارشل فنڈ میں اپنی تقریر میں پومپیو نے خود مختار اقوام کو ایسی “بین الاقوامی تنظیمیں” بنانے کا کہا جو مستعد ہوں، جو قومی خود مختاری کا احترام کرتی ہوں، جو اپنے بیان کردہ مقاصد کو عملی طور پر پورا کرتی ہوں، اور جو آزادانہ نظام اور دنیا کے لیے قدر و قیمت پیدا کرتی ہوں۔”

کیا خود مختاری کا نتیجہ جارحانہ وطن پرستی کی صورت میں نکلتا ہے؟

کچھ قوموں کے خیال میں 20ویں صدی کی بڑی جنگوں نے خود مختاری کو بدنام کیا۔ فونٹے کہتے ہیں کہ خصوصی طور پر دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپ کے لوگ خود مختاری کو وطن پرستی کی ایک جارحانہ شکل کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ “وہ کہتے ہیں، ‘ان جنگوں یعنی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کا آغاز قوم پرستوں نے کیا!’ حالانکہ یہ جنگیں آمروں اور مطلق العنان حکومتوں نے شروع کیں۔” فونٹے یہ دلیل دیتے ہیں کہ اس طرح کی سوچ میں قوم پرستی اور خود مختار ریاستوں کے مثبت کرداروں کو بھلا دیا جاتا ہے۔

خود مختاری کا مقدمہ” کے عنوان سے لکھی جانے والی اپنی کتاب میں پروفیسر جرمی ریبکن کہتے ہیں کہ تاریخی طور پر خود مختاری نے ایک جارح  قوت ہونے سے کہیں زیادہ بڑھکر “سرحدوں کے تعین کے ذریعے امن کو فروغ دیا ہے۔” وہ لکھتے ہیں، ” اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن سے رہنے کی خواہش مند ہر حکومت کو اُن کی خود مختاری کے حقوق کا احترام کرنا ہوتا ہے” اور ایسے “طریقوں سے اپنے اختیارات کا استعمال کرنا ہوتا ہے جن سے وہ ایک قابل برداشت پڑوسی بن جاتی ہے۔”

فونٹے بتاتے ہیں کہ گزشتہ صدی میں “وطن پرست بنیادی طور پر ایسے لوگ تھے جنہیں محب وطن سمجھا جاتا تھا جیسے برطانیہ کے ونسٹن چرچل کے ساتھ ساتھ ہندوستان میں چرچل کی مخالفت کرنے والے گاندھی جی تھے۔ ان دونوں کو قوم پرست کہا جاتا تھا کیونکہ وہ اپنے اپنے ملک کو ہر حال میں مقدم جانتے تھے۔”

فونٹے کے مطابق ان معزز لیڈروں اور چارلس ڈیگال، فرینکلن روزویلٹ، مارگریٹ تھیچر جیسے دیگر لیڈروں کو جمہوری قوم پرست سمجھا جاتا تھا۔ اس اصطلاح کو اور محب وطن کو ایک دوسرے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

فونٹے صدر کے اس جواب کی طرف اشارہ کرتے ہیں جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ وطن پرست ہیں۔ “انہوں نے کہا ‘میں [اپنے] ملک سے محبت کرتا ہوں اور میں اسے سب سے زیادہ عزیز سمجھتا ہوں۔’ انہوں نے جو تعریف کی وہ وہی ہے جو حب الوطنی کی ہے۔”

صدر ٹرمپ سٹیج پر کھڑے ہیں اور لوگوں کے سامنے تقریر کر رہے ہیں۔ (© Anthony Wallace/AP Images)
2017 میں ‘ایشیا – پیسیفک اکنامک کوآپریشن’ کی ایک تقریب میں تقریر کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے وعدہ کیا، “ہم آپ کی آزادی اور خود مختاری کا احترام کریں گے۔” (© Anthony Wallace/AP Images)

کیا خود مختاری اور لاتعلقی ایک چیز ہیں؟

آزاد عوامی حکومت کا مطلب لاتعلقی یا دیگر اقوام کے ساتھ  مل کر کام کرنے سے روگردانی کرنے سے نہیں ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ نے آزاد، منصفانہ اور دوطرفہ اقتصادی تعلقات قائم کرنے کی خاطر تسلسل کے ساتھ میکسیکو، کینیڈا اور افریقی ممالک کے ساتھ مل کر کام کیا ہے

امریکہ نے بین الاقوامی سکیورٹی کے فروغ کی خاطر دہشت گردی کی سازشوں کو ناکام بنانے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکوں کے خلاف براہ راست کاروائیاں کرنے کے لیے دنیا بھر کے ممالک کے ساتھ شراکت کاری کی ہے۔ امریکہ نیٹو میں بڑھ چڑھکر حصہ لیتا ہے اور اور اس کے خود مختار اراکین کی اس اتحاد میں اپنے اپنے حصے بڑھانے کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔

گو کہ امریکہ اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر کام کرنا جاری رکھے گا مگر یہ کام اُن خود مختار ممالک میں اس انداز سے انجام پائے گا کہ وہ اپنی  اپنی سرحدوں میں محفوظ رہیں۔ برومنڈ کا کہنا ہے، “باڑ کھڑی کرنے کا یہ تصور کہ آپ اپنے ہمسائے سے کبھی بھی بات چیت نہیں کرنا چاہتے ایک احمقانہ خیال ہے۔”

صدر نے کہا، “ہم سمجھتے ہیں کہ جب قومیں اپنے ہمسایوں کے حقوق کا احترام کرتی ہیں، اور اپنے عوام کے مفادات کا تحفظ کرتی ہیں، تو اس وقت وہ سلامتی، خوشحالی، اور امن کی نعمتوں کے تحفظ کے لیے اکٹھے مل کر بہتر کام کر سکتی ہیں۔”

یہ مضمون ایک مختلف شکل میں 6 د سمبر 2018  کو ایک بار پہلے بھی شائع ہو چکا ہے۔