خود ناانصافی کا شکار ہونے والی پیرو کی خاتون عورتوں کے لیے انصاف کی حامی

Melania Trump and Arlette Contreras (© Win McNamee/Getty Images)
امریکہ کی خاتون اول میلانیا ٹرمپ 2017ء میں پیرو کی سنڈی آرلیٹ کونٹریراس باتستا کو وزیر خارجہ کا بین الاقوامی جراًتمند خواتین کا ایوارڈ دے رہی ہیں۔ (© Win McNamee/Getty Images)

سنڈی آرلیٹ کونٹریراس باتستا  2015ء سے  صنفی بنیادوں پر کیے جانے والے تشدد کے متاثرین کے لیے انصاف کی جد و جہد کر رہی ہیں۔ انہوں نے ایک آدمی پر انہیں قتل اور جنسی زیادتی کی کوشش کرنے کا الزام لگایا۔ مگر عدالت نے 2015ء میں ملزم پر لگائے گئے الزامات رد کر دیے اور اسے حملہ کرنے کے جرم میں ایک سال کی سزا دی۔  حالانکہ اُن پر کیے جانے والے حملے کی وڈیو بنائی گئی اور سوشل میڈیا پر عوام کی ایک کثیر تعداد نے اسے دیکھا۔

ان کے ذاتی المیے نے اُن کے ملک پیرو میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کو منظرعام پر لانے کے لیے اِن کے عزم کو قوت بخشی۔ آج کونٹریراس  گھریلو تشدد کے متاثرین کی ایک بے باک حامی ہیں اور وکیل کی حیثیت سے ملک اور خطے کے طول و عرض میں عورتوں کی ایک سرگرم تحریک کی قیادت کر رہی ہیں۔

کونٹریراس نے  مارچ میں واشنگٹن میں امریکی براعظموں کی تنظیم کے ایک اجلاس میں کہا، “اس وقت میں اُن عورتوں کی آواز ہوں جو بات نہیں کر سکتیں، جو اپنی آپ بیتیاں نہیں سنا سکتیں، جو اس لمحے آپ کے سامنے نہیں بیٹھ سکتیں اور سب کے سامنے اپنی روزمرہ زندگی میں پیش آنے والی مشکلات کی مذمت نہیں کر سکتیں۔”

ٹووئٹر کی عبارت کا ترجمہ:- سنڈی آرلیٹ کونٹریراس باتستا #WomenofCourage [باہمت خواتین] اور #IVLP میں شرکت کرنے والی خاتون گلنڈا گرے  @Time  [ٹائم رسالے] کی موثر ترین ایک سو افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

اجلاس میں انہوں نے عورتوں کی حمایت کرنے والی ایک سرگرم کارکن کی حیثیت سے  اور “ناٹ ون وومین لیس” نامی تنظیم کے بارے میں بات کی۔ گھریلو تشدد کی دیگر متاثرین اور پیرو میں سول سوسائٹی کی تنظیموں کے تعاون سے کونٹریراس نے عوام میں اپنی جڑیں رکھنے والی اس تنظیم کی بنیاد رکھی۔

کونٹریراس 2017ء میں خاتون اول میلانیا ٹرمپ سے ملنے اور “بین الاقوامی جراًتمند خواتین کا ایوارڈ” وصول کرنے واشنگٹن آئیں تھیں۔ یہ ایوارڈ ایسی خواتین کو دیا جاتے ہیں جنہوں نے غیرمعمولی جراًت اور قیادت کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے۔ کونٹریراس کو اس  ایوارڈ کے لیے صنفی تشدد کا شکار ہونے والے افراد کے لیے اُن کے کام اور ادارہ جاتی احتساب کے لیے اُن کی حمایت پر منتخب گیا تھا۔ وہ دنیا بھر کی اُن 13 خواتین میں شامل تھیں جنہیں یہ ایوارڈ دیے گئے۔

2017ء کی تقریب میں خاتون اول نے کہا، “جیسا کہ ہم جانتے ہیں جہاں کہیں بھی عورتوں کو نیچا دکھایا جاتا ہے،  اس سے پوری دنیا تنزلی کا شکار ہوتی ہے۔”

ایوارڈ حاصل کرنے بعد کونٹریراس عورتوں کے لیے انصاف پر اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اُن کا نام  ٹائم رسالے کی سال 2017 کے موثر ترین افراد کی فہرست اور سال 2018 کی بی بی سی کی فہرست میں شامل تھا۔

کونٹریراس کا کہنا ہے کہ عدالتی عمل کو صنفی تشدد کا شکار ہونے والوں کی مزاحمت کا امتحان نہیں ہونا چاہیے۔  وہ کہتی ہیں، “میں ایک ایسی مثال چھوڑنا چاہتی ہوں جس میں خدمت کی جاتی ہے اور یہ مفید ہو۔ اسی لیے میں اپنے چیلنجوں کو جاری رکھے ہوئے ہوں۔”

یہ مضمون 24 اپریل 2019 کو بھی شائع ہو چکا ہے۔ اسے فری لانس مصنفہ مائیو آلسپ نے تحریر کیا اور اس میں محکمہ خارجہ کے بلاگ،  ڈِپ نوٹ  سے استفادہ کیا گیا۔