خوراک کی فراہمی میں مددگار ثابت ہونے والیں اختراعات

مچھلیاں پکرنے والا جال پکڑے کھڑا ایک آدمی مسکرا رہا ہے (Joaquim Cheupe/USAID)
تجرباتی طور پر مچھلیاں پکڑنے والے جال بنانے والا ایک کاری گر "بڑے سوراخوں" والے جال دکھا رہا ہے۔ کینیا کے ماہی گیر اِن جالوں سے بڑی مچھلیاں پکڑتے ہیں جبکہ چھوٹی مچھلیاں اِن سوراخوں سے نکل کر واپس پانی میں چلی جاتی ہیں۔ (Joaquim Cheupe/USAID)

کینیا میں مچھلی کی گھٹتی ہوئی تعداد اور ماہی گیری کے آلات کے بڑھتے ہوئے کرائیوں پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے کینیائی ماہی گیر، ہمیسی کے لیے اپنے تین بچوں کا پیٹ پالنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔

لہذا ہمیسی اور کینیا کی ساحلی بستیوں اویامبو اور مایانگو کے دیگر مچھیروں نے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کے ‘فیڈ دا فیوچر’ نامی پروگرام کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے کے لیے ایک نئی قسم کے محفوظ جال بنانے پر کام شروع کیا تاکہ مہنگے آلات کے کرایوں پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ مچھلیوں کی مختلف اقسام کا تحفظ بھی کیا جا سکے۔ امریکی حکومت کے بھوک کے خاتمے اور غذائی تحفظ کے اس پروگرام کو یو ایس ایڈ کا ادارہ چلاتا ہے۔

ہمیسی نے فیڈ دا فیوچر کو بتایا (پی ڈی ایف، 335 کے بی) کہ “نئے جالوں میں بڑے سائز کی مچھلیاں پھنستیں ہیں اور اِن کے دام بھی زیادہ ملتے ہیں۔” چھوٹی مچھلیاں جال میں بنے سوراخوں سے نکل جاتی ہیں۔ اسی لیے بڑی مچھلیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مچھلیوں کی نشوونما ہوتی ہے اور اِن کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی نسلوں کے لیے مچھلیوں کی انواع کا تحفظ فروغ پاتا ہے۔

یہ جال کشواحیلی زبان میں ‘سماکی سلامہ پروگرام’ کے تحت بنائے جاتے ہیں جس کا مطلب مچھلی کی سلامتی کا پروگرام  ہے۔  جس طرح امریکہ کے تعاون سے تیار کی جانے والیں ٹکنالوجیاں کسانوں اور ماہی گیروں کو اپنی اقتصادی اور غذائی ضروریات پوری کرنے میں مدد کر رہی ہیں یہ جال اُس کی ایک مثال ہیں۔

 بھارت

شمسی ریفریجریٹر [بائیں] اور الماریوں کے خانے اور پلاسٹک کے ڈبوں میں میں رکھیں سبزیاں [دائیں] کی ساتھ ساتھ دو تصویریں (Courtesy of Sangeeta Chopra)
‘فارم سن فرِج’ نامی شمسی اور بخاراتی ٹکنالوجی کی مدد سے خوراک کو بجلی کے بغیر ٹھنڈا رکھا جا سکتا ہے۔ (Courtesy of Sangeeta Chopra)
بھارت میں یو ایس ایڈ نے مشی گن کی ریاستی یونیورسٹی کی شراکت داری سے ‘فارم سن فرِج’ کی تحقیق اور تیاری میں مدد کی۔ فارم سن فرِج سے شمسی پینلوں اور بخاراتی عمل سے بجلی کے کنکشن  یا بیٹری کے بغیر پھلوں سبزیوں کو ٹھنڈا رکھا جاتا ہے اور یہ خراب ہونے سے محفوظ رہتے ہیں۔ سرد خانوں میں دیر تک خوراک کو رکھنے سے کسانوں کی آمدنیوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سن فرِج کے سادہ ڈیزائن کی وجہ سے کسان اسے خود بنا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں اسے نصب کرنے پر کم لاگت آتی ہے۔

سنگیتا چوپڑہ بھارت کے زرعی تحقیق کے انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتی ہیں اور وہ سن فرِج پراجیکٹ کی سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت کو “30 درجے سنٹی گریڈ سے صفر درجے تک لا کر سبزیوں پھلوں یا دیگر خوردنی اشیاء کو خراب ہونے سے زیادہ دیر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ کینیا اور ایتھوپیا کے محققین اس ٹکنالوجی کو افریقہ میں بھی استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔

بھارت ہی کے ایک موجد ایسی ٹکنالوجی تک رسائی کو عام کر رہے ہیں جو افریقہ اور ایشیا میں سیلابوں اور خشک سالیوں کے دوران کسانوں کو پانی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد کرتی ہے۔ بیلاپ کیتن پال کو اپنے ہاں سیلابی پانی سے آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کا خیال اُس وقت آیا جب وہ 2004 میں امریکی محکمہ خارجہ کے بین الاقوامی مہمانوں کے قیادتی پروگرام کے تحت ریاست فلوریڈا کے شہر میامی میں پینے کے پانی کے ایک پلانٹ کا دورہ کر رہے تھے۔

نیپال

کھیت میں بیٹھیں دو عورتیں فصل کو دیکھ رہی ہیں (Rabik Upadhayay/USAID)
فیڈ دا فیوچر پروگرام کے تحت امریکہ اور نجی شعبہ مل کر نیپال میں کسانوں کی مدد کر رہا ہے جس سے تصویر میں دائیں طرف دکھائی دینے والیں روپا چوہدری سمیت نیپالی کسانوں کی چاول، مکئی، دالوں اور دیگر اجناس سے ہونے والی آمدنی میں اضافہ ہو رہا ہے۔ (Rabik Upadhayay/USAID)

امریکہ نے نیپال میں کسانوں کی فصلوں کے پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے ‘جیو کرشی’ ایپ سمیت کی جانے والیں دیگر کاوشوں میں مدد کی ہے۔ اس ایپ سے کسانوں کو موسمی پیش گوئیوں، فصلوں کی قیمتوں اور دیگر زرعی معلومات میسر آتی ہیں۔ اِنہی کسانوں میں سے ایک ڈانگ میں رہنے والے کسان بھوپندرا کھتری [پی ڈی ایف، 2.06 ایم بی] ہیں۔ وہ جیو کریشی ایپ سے اِس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ اُن کی مکئی کی فصل کے لیے کتنی کھاد درکار ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی ضرورت کے مطابق کھاد خرید سکتے ہیں۔ اس ایپ سے دیگر کسانوں کو مناسب وقت پر اپنی فصلیں بیجنے اور اپنے بیمار مویشیوں کے علاج میں بھی مدد ملتی ہے۔

یو ایس ایڈ کے ڈیجیٹل ڈویلپمنٹ سنٹر نے نیپال میں صنفی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے پراجیکٹ کے لیے مالی وسائل فراہم کیے جس میں جیو کرشی ایپ استعمال کیا جاتا ہے۔ یو ایس ایڈ نے ڈی اے آئی، ہائیفر انٹرنیشنل اور پاتھ وے ٹکنالوجیز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے خواتین کسانوں کو جیوکرشی ایپ کے ذریعے زرعی معلومات سے جوڑنے کے لیے بستیوں کی بنیاد پر کمیونٹی مراکز قائم کیے۔

 یوکرین

اناج کے ڈھیر کے قریب ایک آدمی نے اپنے ہاتھ میں اناج کے دانے اٹھا رکھے ہیں (Vlad Sobel/USAID)
یو ایس ایڈ بیجوں، فصلوں کے تحفظ اور دیگر زرعی ٹکنالوجیوں تک رسائی میں اضافہ کر کے ویسل مارکو وِچ جیسے یوکرینی کسانوں کی مدد کر رہا ہے۔ (Vlad Sobel/USAID)

5 جون کو یو ایس ایڈ نے ‘کورٹیوا ایگری سائنس’ نامی کمپنی کے ساتھ مل کر یوکرین کے کسانوں کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت انہیں سورج مکھی اور مکئی کے ایسے بیج فراہم کیے جائیں گے جو ناموافق موسمی حالات میں اُگائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں فصلوں کے تحفظ سے متعلق دیگر ٹکنالوجیاں بھی فراہم کی جائیں گیں۔

یہ امداد یو ایس ایڈ کے 100 ملین ڈالر مالیت کے یوکرین کی زرعی شعبے میں مدد کرنے والے ‘ایگریکلچر ریسیلیئنس انیشی ایٹو (اے جی آر آئی) – یوکرین‘ نامی  پروگرام کی ایک کڑی ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایک ایسے وقت 13,700 سے زائد یوکرینی کسانوں کو بیج، کھاد اور دیگر زرعی آلات فراہم کیے جا چکے ہیں جب یوکرین کی زرعی زمینوں اور فصل ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو روس کی وحشیانہ جنگ سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔

یو ایس ایڈ کے حکام نے بتایا کہ “ایگری-یوکرین [پروگرام] مشکلات سے دوچار یوکرین کی معیشت کو سہارا دے رہا ہے اور روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے ابتر ہونے والے غذائی سلامتی کے عالمی بحران کی سنگینی میں کمی لانے میں مدد کر رہا ہے۔ [اس کے ذریعے ] یوکرین کی اناج پیدا کرنے، ذخیرہ کرنے اور برآمد کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔”