
کینیا میں مچھلی کی گھٹتی ہوئی تعداد اور ماہی گیری کے آلات کے بڑھتے ہوئے کرائیوں پر اٹھنے والے اخراجات کی وجہ سے کینیائی ماہی گیر، ہمیسی کے لیے اپنے تین بچوں کا پیٹ پالنا دن بدن مشکل ہوتا جا رہا تھا۔
لہذا ہمیسی اور کینیا کی ساحلی بستیوں اویامبو اور مایانگو کے دیگر مچھیروں نے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کے ‘فیڈ دا فیوچر’ نامی پروگرام کے ساتھ مچھلیاں پکڑنے کے لیے ایک نئی قسم کے محفوظ جال بنانے پر کام شروع کیا تاکہ مہنگے آلات کے کرایوں پر اٹھنے والے اخراجات میں کمی کے ساتھ ساتھ مچھلیوں کی مختلف اقسام کا تحفظ بھی کیا جا سکے۔ امریکی حکومت کے بھوک کے خاتمے اور غذائی تحفظ کے اس پروگرام کو یو ایس ایڈ کا ادارہ چلاتا ہے۔
ہمیسی نے فیڈ دا فیوچر کو بتایا (پی ڈی ایف، 335 کے بی) کہ “نئے جالوں میں بڑے سائز کی مچھلیاں پھنستیں ہیں اور اِن کے دام بھی زیادہ ملتے ہیں۔” چھوٹی مچھلیاں جال میں بنے سوراخوں سے نکل جاتی ہیں۔ اسی لیے بڑی مچھلیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مچھلیوں کی نشوونما ہوتی ہے اور اِن کی تعداد میں اضافہ ہونے کے ساتھ ساتھ مستقبل کی نسلوں کے لیے مچھلیوں کی انواع کا تحفظ فروغ پاتا ہے۔
یہ جال کشواحیلی زبان میں ‘سماکی سلامہ پروگرام’ کے تحت بنائے جاتے ہیں جس کا مطلب مچھلی کی سلامتی کا پروگرام ہے۔ جس طرح امریکہ کے تعاون سے تیار کی جانے والیں ٹکنالوجیاں کسانوں اور ماہی گیروں کو اپنی اقتصادی اور غذائی ضروریات پوری کرنے میں مدد کر رہی ہیں یہ جال اُس کی ایک مثال ہیں۔
بھارت
سنگیتا چوپڑہ بھارت کے زرعی تحقیق کے انسٹی ٹیوٹ میں کام کرتی ہیں اور وہ سن فرِج پراجیکٹ کی سربراہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درجہ حرارت کو “30 درجے سنٹی گریڈ سے صفر درجے تک لا کر سبزیوں پھلوں یا دیگر خوردنی اشیاء کو خراب ہونے سے زیادہ دیر تک محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ کینیا اور ایتھوپیا کے محققین اس ٹکنالوجی کو افریقہ میں بھی استعمال کرنے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔
بھارت ہی کے ایک موجد ایسی ٹکنالوجی تک رسائی کو عام کر رہے ہیں جو افریقہ اور ایشیا میں سیلابوں اور خشک سالیوں کے دوران کسانوں کو پانی کو بہتر طریقے سے استعمال کرنے میں مدد کرتی ہے۔ بیلاپ کیتن پال کو اپنے ہاں سیلابی پانی سے آبپاشی کے نظام کو بہتر بنانے کا خیال اُس وقت آیا جب وہ 2004 میں امریکی محکمہ خارجہ کے بین الاقوامی مہمانوں کے قیادتی پروگرام کے تحت ریاست فلوریڈا کے شہر میامی میں پینے کے پانی کے ایک پلانٹ کا دورہ کر رہے تھے۔
نیپال

امریکہ نے نیپال میں کسانوں کی فصلوں کے پیداوار میں اضافہ کرنے کے لیے ‘جیو کرشی’ ایپ سمیت کی جانے والیں دیگر کاوشوں میں مدد کی ہے۔ اس ایپ سے کسانوں کو موسمی پیش گوئیوں، فصلوں کی قیمتوں اور دیگر زرعی معلومات میسر آتی ہیں۔ اِنہی کسانوں میں سے ایک ڈانگ میں رہنے والے کسان بھوپندرا کھتری [پی ڈی ایف، 2.06 ایم بی] ہیں۔ وہ جیو کریشی ایپ سے اِس بات کا تعین کر سکتے ہیں کہ اُن کی مکئی کی فصل کے لیے کتنی کھاد درکار ہے جس کے نتیجے میں وہ اپنی ضرورت کے مطابق کھاد خرید سکتے ہیں۔ اس ایپ سے دیگر کسانوں کو مناسب وقت پر اپنی فصلیں بیجنے اور اپنے بیمار مویشیوں کے علاج میں بھی مدد ملتی ہے۔
یو ایس ایڈ کے ڈیجیٹل ڈویلپمنٹ سنٹر نے نیپال میں صنفی تقسیم کو ختم کرنے کے لیے ایک ایسے پراجیکٹ کے لیے مالی وسائل فراہم کیے جس میں جیو کرشی ایپ استعمال کیا جاتا ہے۔ یو ایس ایڈ نے ڈی اے آئی، ہائیفر انٹرنیشنل اور پاتھ وے ٹکنالوجیز کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے خواتین کسانوں کو جیوکرشی ایپ کے ذریعے زرعی معلومات سے جوڑنے کے لیے بستیوں کی بنیاد پر کمیونٹی مراکز قائم کیے۔
یوکرین

5 جون کو یو ایس ایڈ نے ‘کورٹیوا ایگری سائنس’ نامی کمپنی کے ساتھ مل کر یوکرین کے کسانوں کے لیے ایک منصوبے کا اعلان کیا جس کے تحت انہیں سورج مکھی اور مکئی کے ایسے بیج فراہم کیے جائیں گے جو ناموافق موسمی حالات میں اُگائے جا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں فصلوں کے تحفظ سے متعلق دیگر ٹکنالوجیاں بھی فراہم کی جائیں گیں۔
یہ امداد یو ایس ایڈ کے 100 ملین ڈالر مالیت کے یوکرین کی زرعی شعبے میں مدد کرنے والے ‘ایگریکلچر ریسیلیئنس انیشی ایٹو (اے جی آر آئی) – یوکرین‘ نامی پروگرام کی ایک کڑی ہے۔ اس پروگرام کے تحت ایک ایسے وقت 13,700 سے زائد یوکرینی کسانوں کو بیج، کھاد اور دیگر زرعی آلات فراہم کیے جا چکے ہیں جب یوکرین کی زرعی زمینوں اور فصل ذخیرہ کرنے کی سہولیات کو روس کی وحشیانہ جنگ سے بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے۔
یو ایس ایڈ کے حکام نے بتایا کہ “ایگری-یوکرین [پروگرام] مشکلات سے دوچار یوکرین کی معیشت کو سہارا دے رہا ہے اور روس کی یوکرین کے خلاف جنگ کی وجہ سے ابتر ہونے والے غذائی سلامتی کے عالمی بحران کی سنگینی میں کمی لانے میں مدد کر رہا ہے۔ [اس کے ذریعے ] یوکرین کی اناج پیدا کرنے، ذخیرہ کرنے اور برآمد کرنے کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔”
AGRI-Ukraine is already supporting 30% of farmers as they weather Putin’s war. The private sector is key to this initiative — this week, we announced Corteva Agriscience will provide sunflower & corn seeds, crop protection, and financing to Ukraine. https://t.co/uBKeBrtYex pic.twitter.com/xBaTYslwBJ
— Samantha Power (@PowerUSAID) June 8, 2023