
دنیا کے بہت سے حصوں میں خوراک ایک ضروری مگر قلیل وسیلہ ہے۔ عالمی تنازعات، موسمیاتی تبدیلی اور کووڈ-19 کی وجہ سے پیدا ہونے والے ترسیلی تعطلوں کی وجہ سے یہ مسئلہ مزید گھمبیر ہو گیا ہے۔ اِس مضمون میں موجودہ غذائی بحران پر حالیہ تصادموں کے اثرات پر گہری نظر ڈالی گئی ہے۔
کئی ممالک میں جاری تنازعات خوراک کے عالمی بحران اور کمزور آبادیوں میں روز افزوں بھوک کا باعث بنتے ہیں۔ بالعموم عام لوگ اس سے سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔ وہ خوراک اور سر چھپانے کے لیے کسی پناہ گاہ کی تلاش میں اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔
“ایکشن اگینسٹ ہنگر” [بھوک کے خلاف عملی اقدام] نامی تنظیم اپنے 2022 کے ایک حقائق نامے میں بتاتی ہے کہ 2020 میں 23 ممالک میں 99 ملین افراد کے بھوک کا شکار ہونے کا بنیادی محرک تصادم تھے۔
بہت سے تصادم برسوں پرانے ہیں۔ اِن میں سے کچھ تصادموں کی وجہِ نزاع قیمتی قدرتی وسائل ہیں۔ جیسے:
- وسطی افریقی جمہوریہ میں ہیرے، سونا اور یورینیم۔
- موزمبیق میں قدرتی گیس اور معدنیات کے ذخیرے۔
- ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو میں ہیرے، سونا، تانبا، کوبالٹ، کیسیٹرائٹ اور کولٹن۔

اور تصادم ہیں کہ بڑھتے ہی جا رہے ہیں۔
فروری میں روس کا یوکرین پرکیا جانے والا حملہ انہیں تصادموں میں شامل ہے۔ جنگ سے پہلے یوکرین ہر سال اتنا اناج پیدا کرتا تھا جو 400 ملین افراد کی خوراک کی ضروریات پوری کرنے کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یاد رہے کہ اِن میں سے اکثریت کا تعلق افریقہ سے ہوتا ہے۔ اس کے باوجود کہ اگست میں یوکرینی اناج کی کھیپیں بالآخر یوکرین کی بحیرہ اسود کی بندرگاہوں سے افریقہ کے لیے روانہ ہونا شروع ہوگئی ہیں مگر اس برس مذکورہ تعداد تک اناج نہیں پہنچ سکے گا۔
فروری سے لے کر اب تک امریکہ عالمی سطح پر ہنگامی بنیادوں پر خوراک کی دستیابی کو یقینی بنانے کی خاطر 5.7 ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کر چکا ہے۔ یہ امداد اُن افریقی ممالک کو بھی دی گئی ہے جن کے شہری شدید بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہیں جن کی سب سے بڑی وجہ تصادم ہیں۔
ذیل میں دیئے جانے والے تصادموں کا شمار اُن تصادموں میں ہوتا ہے جن سے خوراک کی سلامتی کو خطرہ لاحق ہے:-
ایتھوپیا

شمالی ایتھوپیا کے افار، امہارا اور ٹیگرے کے علاقوں میں لڑائی اور مشرقی اور جنوبی ایتھوپیا میں خشک سالی نے بہت سے بےگناہ شہریوں کو فاقہ کشی کے دہانے پر لا کھڑا کیا ہے۔
وفاقی حکومت اور ٹیگرے پیپلز لبریشن فرنٹ کے درمیان ملک کے ٹِیگرے کے علاقے میں ہونے والا تصادم نومبر 2020 میں شروع ہوا جو بعد ازاں پھیل کر افار اور امہارا کے علاقوں تک پہنچ گیا۔ ٹیگرے میں رہنے والے 90% سے زیادہ لوگوں کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔ تینوں خطوں میں تقریباً 2.5 ملین افراد اپنے گھر بار چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
شمال میں ایتھوپیا کے 9 ملین سے زیادہ شہریوں کو شدید بھوک کا سامنا ہے۔
جولائی میں امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) نے اعلان کیا کہ ادارہ مالی سال 2022 میں انسانی بنیادوں پر ایتھوپیا کو 668 ملین ڈالر سے زائد مالیت کی امداد فراہم کر چکا ہے۔ اس میں 1.6 ملین ڈالر غذائیت کی کمی کے شکار بچوں کو اضافی غذائیت کی حامل اشیاء کی فراہمی میں مدد کرنے کے لیے اور 4.4 ملین ڈالر اُن لوگوں کی مدد کے لیے تھے جنہیں پینے کے صاف پانی کی کمی کا سامنا ہے۔
صومالیہ
1991 کے بعد سے صومالیہ کو خوراک کی شدید عدم سلامتی اور دائمی عدم تحفظ، بار بار آنے والی خشک سالیوں اور سیلاب اور الشباب دہشت گرد گروپ کی جانب سے کیے جانے والے تشدد سمیت وسیع پیمانے کے تشدد کا سامنا ہے۔

دہشت گرد گروہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں اُن شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں جن کے بارے میں اُن کا خیال ہے کہ اُن کے حکومت سے روابط ہیں۔
اقوام متحدہ کے اندازے کے مطابق تقریباً تین ملین صومالی اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے اور تصادموں اور موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی وجہ سے ملک کے اندر بے گھر ہو گئے۔
امریکی حکومت نے مالی سال 2022 میں اب تک انسانی بنیادوں پر صومالیہ کو تقریباً 707 ملین ڈالر کی امداد فراہم کی ہے جس سے امریکہ صومالیہ کو انسانی بنیادوں پر سب سے زیادہ امداد دینے والا ملک بن گیا ہے۔
یمن
حکومت کی حامی افواج اور حوثی باغیوں کے درمیان آٹھ سال سے جاری جنگ نے یمن کو دنیا کے بدترین انسانی بحرانوں میں شمار ہونے والے بحران سے نوازا ہے۔ تصادم اور اس کے نتیجے میں آنے والی معاشی تباہی نے یمن کی دو تہائی سے زیادہ آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت میں مبتلا کر دیا ہے۔ اِن میں 19 ملین افراد ایسے ہیں جو بھوک کا سامنا کر رہے ہیں۔
اقوام متحدہ کے تحت ہونے والے مذاکرات کے نتیجے میں جنگ بندی کے معاہدے میں اگست میں توسیع کی گئی۔

اقوام متحدہ کی 2021 کی رپورٹ کے مطابق خانہ جنگی کے نتیجے میں 377,000 سے زیادہ یمنی ہلاک ہو چکے ہیں۔ اِس تصادم نے 4 ملین سے زیادہ افراد ( پی ڈی ایف، 289 کے بی) کو بے گھر کر دیا ہے جن میں اکثریت عورتوں اور بچوں کی ہے۔ یمن میں 20 لاکھ سے زائد بچے غذائیت کی جان لیوا کمی کا شکار ہیں۔
یمن اپنی 90 فیصد اناج اور دیگر غذائی ضروریات پوری کرنے کے لیے درآمدات پر انحصار کرتا ہے۔ خوراک کے عالمی پروگرام کے مطابق 46 فیصد گندم کی درآمدات روس اور یوکرین سے کی جاتی تھیں۔
اگست میں یو ایس ایڈ کے تعاون سے خوراک کے عالمی پروگرام نے یوکرین سے 37,000 میٹرک ٹن گندم یمن پہنچائی۔ گندم کی اس مقدار سے چار ملین یمنیوں کو خوراک میسر آئے گی۔ فروری کے آخر میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد یوکرین سے یمن پہنچنے والی گندم کی یہ پہلی کھیپ ہے۔
2022 میں امریکہ انسانی بنیادوں پر یمنی عوام کو ایک ارب ڈالر سے زائد کی امداد فراہم کر چکا ہے۔