خوراک کے بحران کے حل کے لیے مل جل کر کام کرنا

ایک عورت مسکراتے ہوئے تصویر بنوا رہی ہے (© TechnoServe/Feed the Future)
تنزانیہ سے تعلق رکھنے والی سیورینا پال مکاتیبہ نے غذائیت سے بھرپور آٹے کے اپنے "اے اے نافاکا سٹور سپلائی لمٹیڈ" نامی کاروبار کو ترقی دینے کے لیے "یو ایس فیڈ دا فیوچر" کے ایک پراجیکٹ سے مدد حاصل کی۔ اس طرح کے پروگرام خوراک کے بحران کے خاتمے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں۔ (© TechnoServe/Feed the Future)

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے 20 ستمبر کو کہا کہ زیادہ سے زیادہ ممالک عالمی بھوک سے نمٹنے کا عہد کر رہے ہیں مگر اس ضروری کام کے لیے مزید اقدامات کی درکار ہیں۔

بلنکن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 77ویں اجلاس کے موقع پر امریکہ کی مشترکہ میزبانی میں منعقد کی جانے والے غذائی تحفظ کے ایک علیحدہ سربراہی اجلاس میں کہا کہ “عملی اقدامات انتہائی اہم ہیں کیونکہ موجودہ بحران ایک ایسا بحران ہے جسے کوئی بھی ملک انفرادی طور پر حتٰی کہ ملکوں کو کوئی گروپ بھی اکیلے حل نہیں کر سکتا۔ ہمارا کام بڑا واضح ہے۔”

بلنکن نے کہا کہ قطع نظر اس کے کہ دنیا کے تمام ممالک نے اب تک کتنا کام کیا ہے ہر ایک ملک سے یہ کہنا ہے کہ وہ مزید کام کرے اور اس میں امریکہ بھی شامل ہے۔ اس سے اگلے دن صدر بائیڈن نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں اعلان کیا کہ امریکہ خوراک کے عالمی تحفظ کو مضبوط بنانے کے لیے انسانی اور ترقیاتی امداد کی شکل میں  2.9 ارب ڈالر  کی اضافی امداد کا وعدہ کرے گا۔

یہ امداد اُس امداد کے علاوہ ہے جو امریکی حکومت فروری کے بعد سے خوراک کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے پہلے ہی دے چکی ہے۔ فروری کے بعد دی جانے والی مذکورہ امداد میں 8.2 ارب ڈالر انسان دوست امداد اور 2.9 ارب ڈالر ترقیاتی امداد کی مد میں دیئے گئے ہیں۔

بلنکن نے مستقبل میں مندرجہ ذیل سمیت کئی ایک محاذوں پر عملی اقدامات کا مطالبہ کیا:-

  1. یوکرین اور روس کے درمیان ترکی اور اقوام متحدہ کی ثالثی میں طے پانے والے معاہدے میں توسیع کی جائے۔ اس معاہدے کے تحت روس نے یوکرین کی بحیرہ اسود پر موجود بندرگاہوں کی ناکہ بندی ختم کر دی جس کے نتیجے میں افریقی اور دیگر ضرورت مند ممالک تک اناج اور دیگر زرعی اجناس کا پہنچانا ممکن ہوا۔
  2. دنیا کے ممالک کی اپنے ہاں زیادہ خوراک پیدا کرنے میں مدد کی جائے۔ امریکہ اگلے پانچ برسوں کے دوران زرعی جدت طرازی، پائیداری اور خود کفالت کے فیڈ دا فیوچر جیسے پروگراموں میں مدد کرنے کی خاطر 11 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کے لیے کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرے گا۔
  3. غذائی تحفظ کی کاوشوں کو مزید شفاف بنایا جائے۔ امریکہ نے 21 ستمبر کو موجودہ صورت حال کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی۔ اس رپورٹ میں مئی میں تیار کیے گئے غذا کے عالمی تحفظ کے روڈ میپ میں مقرر کردہ اہداف پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے امریکہ نے اپنی پیشرفت بتائی۔ روڈ میپ کے 103 دستخط کنند گان نے سب سے زیادہ ضرورتمندوں تک خوراک پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھانے کا وعدہ کر رکھا ہے۔

وزیر خارجہ نے کہا کہ 2022 کے آغاز تک تصادم، کووڈ-19 اور موسمیاتی بحران کے اثرات 190 ملین سے زائد افراد کو شدید غذائی عدم تحفظ کے منہ میں دھکیل چکے تھے۔

بلنکن نے کہا کہ “ہمیں ہنگامی حالات کا مقابلہ کرنا ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ہمیں اپنے آپ کو ایک طویل عرصے کے لیے بھی تیار کرنا ہے۔”

امریکہ امداد کو بڑہانا جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ نے بھوک کے خاتمے کے لیے “کیریبیئن زیرو ہنگر پلان” جیسے نئے پروگرام بھی شروع کر رکھے ہیں۔ مذکورہ پروگرام خطے کے ممالک کے صلاح مشورے سے تیار کیا گیا ہے۔

بلنکن نے کہا کہ “ہمارے لوگوں کی صحت، استحکام، فلاح کا انحصار اُس غذائی تحفظ  پر ہے جو ہم مل کر فراہم کر رہے ہیں۔”