خوراک کے ضیاع کو روکنے کا کام

گاجر اور آلو سمیت غیر معمولی نظر آنے والی سبزیوں کی فنکارانہ ترتیب (© Shutterstock.com)
کھانے کا ضیاع تب ہوتا ہے جب سٹور "بدصورت" سبزی اور پھلوں یا میعاد ختم ہونے والے کھانے کو اس لیے پھینک دیتے ہیں کیونکہ صارفین انہیں نہیں خریدتے۔ کئی امریکی تنظیمیں اس طرزعمل کو تبدیل کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ (© Shutterstock.com)

خوراک کا ضیاع دنیا میں بھوک کے مسئلے کو بد سے بدتر بناتا ہے اور موسمیاتی بحران کے ایک بڑی وجہ گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج میں اضافہ کرتا ہے۔

اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ دنیا بھر میں ہر سال تقریباً ایک تہائی خوراک ضائع ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پھینکے جانے والے کھانے گرین ہاؤس گیسوں کے مجموعی اخراجوں میں سے 8%  اخراجوں کا باعث بنتے ہیں۔

امریکہ میں  فعال کارکن اور تنظیمیں کھانوں کی ری سائیکلنگ کو فروغ دیتی ہیں۔ ان کی کوششوں سے کمیونٹیوں کو کھانا کھلانے اور کاربن کے اخراجوں کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔

“خوراک کھیت سے کچرے میں جائے” یہ نہیں ہو سکتا

جب 14 سالہ ماریہ روز بیلڈنگ رضاکارانہ طور پر خیراتی کام کر رہی تھیں تو انہوں نے ایسے میں میعاد ختم ہونے والا کھانا کچرے میں پھینکتے ہوئے دیکھا جب لوگ ایک مقامی فوڈ بینک میں قطار میں کھڑے کھانا لینے کا انتظار کر رہے تھے۔

انہوں نے جنوری میں بی بی سی کو بتایا، “مجھ میں آج تک جتنے بھی تکلیف دہ احساسات پیدا ہوئے ہیں یہ احساس اُن میں سے ایک تھا۔” انہوں ‘ مینز’ کے نام سے ایک ڈیٹا بیس تیار کرنے میں کئی برس صرف کیے۔

یہ پلیٹ فارم ریستوراںوں اور پرچون کی دکانوں کو [مفت کھانا فراہم کرنے والے] اُن فوڈ بینکوں، فوڈ پینٹریز، سوپ کچن، شیلٹرز اور عبادت گاہوں سے جوڑتا ہے جو فاضل یا ایسا کھانا تقسیم کرتے ہیں جن کی معیاد ختم ہونے کے قریب ہوتی ہے۔ اگر اس قسم کے کھانے کو  تقسیم نہ کیا جائے تو اسے پھینک دیا جاتا ہے۔

اس پلیٹ فارم کی ابتدا تو ایک چھوٹے سے پہلیٹ فارم کی شکل میں ہوئی مگر اس کا استعمال وقت کے ساتھ ساتھ پھیلتا چلا گیا۔ بیلڈنگ بتاتتی ہیں، “ہم نے دو ریاستوں سے اس کا آغاز کیا [مگر] 2015 کے آخر تک یہ پلیٹ فارم 26 [ریاستوں] میں استعمال کیا جانے لگا۔ ہم نے یہ پلیٹ فارم امریکی یونیورسٹی کے ہاسٹل کے کمرے سے چلایا۔”

 تقریر کرتے ہوئے ماریا روز بیلڈنگ اپنی طرف اشارہ کر رہی ہیں (© Jamie McCarthy/Getty Images)
ماریا روز بیلڈنگ کو جارج ایچ ڈبلیو بش کے ‘ پوائنٹس آف لائٹ ایوارڈز گالا’ کی نیو یارک سٹی میں 2019 میں ہونے والی ایک تقریب میں ایوارڈ دیا گیا۔ (© Jamie McCarthy/Getty Images)

اس وقت سے لے کر اب تک ‘ مینز’ ڈیٹا بیس کے ذریعے 3.1 ارب کلوگرام سے زیادہ خوراک بچائی جا چکی اور  اور امریکہ میں 537,000 سے زائد افراد کو کھانا دیا جا چکا ہے۔

امریکی طلبا کی زیرقیادت چلنے والی ‘ فارم لنک  پراجیکٹ’ ایک  ایسی غیر منفعتی تنظیم ہے جو کسانوں کو فوڈ بینکوں سے براہ راست جوڑ کر اپنا کام کرتی ہے۔

اس تنظیم کے سی ای او اور شریک بانی جیمز کنوف کہتے ہیں، “ہم ایک ایسا فوڈ سسٹم بنانے کے مشن پر ہیں جو لوگوں اور ہماری زمین کو اولیت دیتا ہے۔”

رضاکار طلباء کسانوں کی فالتو پیداوار کو قریبی فوڈ بینکوں میں پہنچاتے ہیں جو انہیں ضرورت مند امریکیوں میں تقسیم کردیتے ہیں۔

2020 سے اب تک فارم لنک پراجیکٹ نے تقریباً 24.5 ملین کلوگرام خوراک کو بچا کر امریکہ بھر میں 44.8 ملین افراد کو کھانا فراہم کیا۔ اس سے 10,300 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے اخراجوں کو روکا گیا جس کی مثال 2,200 کاروں کو سڑکوں سے ہٹا لینے کے برابر ہے۔

فارم لنک پراجیکٹ کے حال ہی میں شروع کیے گئے ‘ فارم لنک پراجیکٹ میکسیکو’ اب تک 112,000 کلوگرام سے زیادہ سبزی  ملک کے فوڈ بینکوں میں پہنچا چکا ہے۔

‘ بدصورت’ پھلوں اور سبزیوں کو بچانا

 آلووں کا تھیلا جن کا نام "سپگلیز" ہے (© Charlie Neibergall/AP Images)
2019 میں اربن ڈیل، آئیوا میں سبزی کی دکان پر “نامکمل” آلو (© Charlie Neibergall/AP Images)

سبزیوں کے سٹور بعض اوقات کھانے کے لیے مکمل طور پر موزوں مگر دیکھنے میں بدصورت دکھائی دینے والی سبزی یا پھلوں کو اس لیے پھینک دیتے ہیں کیونکہ صارفین “نامکمل سبزیاں یا پھل نہیں خریدتے۔

گھروں پر سودا سلف پہنچانے والی ‘ امپرفیکٹ فوڈز” نامی کمپنی امریکہ کے سٹوروں سے آنے والے پھلوں اور سبزیوں کو محفوظ کر لیتی ہے اور انہیں ہر ہفتے لوگوں کے گھروں پر پہنچاتی ہے۔

سات سال قبل ‘ امپرفیکٹ فوڈز’ کے قیام سے لے کر اب تک اس تنظیم نے 14.5 ارب لٹر پانی کی بچت کر کے اور 35,000 میٹرک ٹن کاربن ڈائی آکسائیڈ کے پیدا ہونے کو روک کر 63,049,000 کلوگرام خوراک کو ضائع ہونے سے پچایا۔

اس کمپنی کا کہنا ہے، “جب ہم کھانے کی جو چیزیں اگاتے ہیں تو ہم چاہتے ہیں کہ انہیں کھایا جائے تاکہ اس کے اگانے میں کام آنے والے تمام وسائل یعنی پانی، توانائی، مالی سرمایہ کاری، وقت اور دیکھ بھال کی قدر کی جائے۔”