
اپریل 2023 میں سوڈان میں تصادم شروع ہونے سے پہلے ہی سوڈان کی ایک تہائی آبادی کو خوراک کی قلت کی وجہ سے بھوک کا سامنا تھا۔ خدشہ ہے کہ سوڈان میں ہونے والے تصادم کے اثرات سے 19 ملین سے زائد افراد خوراک کی مناسب مقدار سے محروم ہو جائیں گے۔ یہ تعداد ملک کی 40 فیصد آبادی کے برابر ہے۔
بڑھتی ہوئی انسانی ضروریات کے جواب میں اقوام متحدہ کا خوراک کا عالمی پروگرام (ڈبلیو ایف پی) سوڈان میں ہنگامی حالات کی اپنی اعلٰی ترین سطح پر کام کر رہا ہے۔ یاد رہے کہ ڈبلیو ایف پی انسانی بنیادوں پر بھوک کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ خوراک کی عدم سلامتی کا مقابلہ کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔
ڈبلیو ایف پی نے حال ہی میں سوڈان میں ملک کی فوج اور ریپڈ سپورٹ فورسز کے نیم فوجی گروپ کے درمیان تصادم شروع ہونے کے بعد ایک ملین سے زائد افراد کو ہنگامی بنیادوں پر بطور امداد خوراک فراہم کی۔ اپریل کے وسط میں عملے کے تین ارکان کی موت کے بعد سوڈان میں کارروائیوں کو عارضی طور پر معطل کرنے کے باوجود ڈبلیو ایف پی نے خوراک کی تقسیم میں اضافہ کیا ہے۔ مئی کے اوائل میں خوراک کی تقسیم دوبارہ شروع کرنے کے بعد سے اب تک 18 میں سے 14 ریاستوں میں لوگوں تک زندگی بچانے والی امداد پہنچائی جا چکی ہے۔
سوڈان میں ڈبلیو ایف پی کے کنٹری ڈائریکٹر ایڈی رو نے کہا کہ “ڈبلیو ایف پی سوڈان کے اندرلاکھوں لوگوں کو اور ہمسایہ ممالک میں پناہ لینے والے مزید اُن ہزاروں لوگوں کو جانیں بچانے والی امداد پہنچانے کے لیے ہر ممکنہ کوششں کر رہا ہے۔ مگر یہ کام ہم اکیلے نہیں کر سکتے۔”
ڈبلیو ایف پی کی ساری فنڈنگ حکومتوں، اداروں، کارپوریشنوں اور افراد کی طرف سے رضاکارانہ طور پر دیئے جانے والے عطیات سے ہوتی ہے۔ گزشتہ برس ڈبلیو ایف پی نے 120 سے زائد ممالک میں 160 ملین سے زیادہ لوگوں کی مدد کی۔ اس عرصے کے دوران امریکہ نے ڈبلیو ایف پی کو 7.2 ارب ڈالر سے زائد کے عطیات دیئے۔ یہ رقم ڈبلیو ایف پی کے مجموعی بجٹ کے نصف سے زیادہ بنتی ہے۔

ڈبلیو ایف پی کئی ایک کام کر رہا ہے۔ اِن میں سے چند ایک کا احوال ذیل میں بیان کیا جا رہا ہے:-
زمبابوے
امریکہ نے حال ہی میں ڈبلیو ایف پی کو 8.7 ارب ڈالر بطور عطیہ دیئے۔ ڈبلیو ایف پی اس رقم سے خوراک کی قلت کی شکار بستیوں میں رہنے والے زمبابوے کے 65,000 سے زائد شہریوں کی مدد کرے گا۔ یہ رقم اگلے چھ ماہ میں استعمال کی جائے گی۔
اس پیسے سے ڈبلیو ایف پی کے “فوڈ اسسٹنس فار ایسٹس” نامی پروگرام کے تحت لوگوں کو کام کرنے کے بدلے خوراک کی شکل میں امداد دی جائے گی۔ اس کے علاوہ چھوٹے پیمانے کی کاشت کاری کے بنیادی ڈھانچے تعمیر کرنے، دیہی سطح پر لوگوں کی پیسے بچانے میں اور قرض دینے والے گروپوں کی مدد بھی کی جائے گی۔
اس پروگرام میں شامل لوگوں کو اُن کے کام کی مدت کے دوران مکئی کا آٹا، دالیں اور خوردنی تیل کا ماہانہ راشن دیا جائے گا۔ اس کے علاوہ انہیں انشورنس اور مالیاتی شمولیت کے ساتھ ساتھ فوڈ پراسیسنگ اور قریبی مارکیٹوں سے جڑنے کی تربیت بھی دی جائے گی۔
ڈبلیو ایف پی کی قائم مقام کنٹری ڈائریکٹر کرسٹین مینڈیز نے کہا کہ “ہم موسماتی تبدیلیوں کے منفی اثرات اور بار بار کے معاشی جھٹکوں کا مقابلہ کرنے کے لیے زمبابوے کے کمزور طبقے کے لوگوں کی مسلسل مدد کرنے پر امریکی حکومت کے شکرگزار ہیں۔”
یوکرین

یوکرین کے خلاف روسی حکومت کی بلا اشتعال جنگ نے خوراک کی پیداوار اور رسدی سلسلے درہم برہم کر دیئے جس کے نتیجے میں بہت سے لوگوں کی غذائیت بخش خوراک تک رسائی ختم ہو گئی اور 11 ملین یوکرینی شہری خوراک کی مناسب مقدار سے محروم ہوگئے۔ جنگ نے خوراک کی رسد میں بھی ڈرامائی طور پر کمی کی جس کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔ جنگ سے پہلے یوکرین کا شمار دنیا میں سب سے زیادہ اناج پیدا کرنے والے ممالک میں ہوتا تھا اور یوکرین سالانہ 400 ملین افراد کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا۔
ڈبلیو ایف پی خوراک کی کمی کے حوالے سے کمزور لوگوں کی مدد کے لیے خوراک اور نقد امداد کا ملا جلا طریقہ استعمال کر رہا ہے۔ اس کے تحت ڈبلیو ایف پی ضرورت مندوں کی جائے رہائش کے قریب خوراک کے راشن کی تقسیم اور انہیں قابل رسا بنکوں اور فوڈ مارکیٹوں کے ذریعے نقد پیسہ منتقل کرنے کے لیے مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔
اس کے علاوہ ڈبلیو ایف پی نے بحیرہ اسود کی بندرگاہوں کو دوبارہ کھولنے کی کوششوں کی بھی حمایت کی ہے اور اب بحیرہ اسود کے ذریعے یوکرین سے ضرورت مند ممالک میں اناج پہچانے کے لیے دن رات کام کر رہا ہے۔
امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے کہا کہ “ڈبلیو ایف پی سنگین سے سنگین تر ہوتے ہوئے غذائی سلامتی کے عالمی بحران سے نمٹنے کے لیے بین الاقوامی برادری کی کوششوں میں انتہائی اہم کردار ادا کر رہا ہے اور سب سے زیادہ عطیات دینے والا ملک امریکہ اس کی مسلسل کامیابی میں گہری دلچسپی رکھتا ہے۔”