خوشحال اور محفوظ بحرہند و بحرالکاہل کے شراکت کار

کملا ہیرس مزدوروں سے باتیں کر رہی ہیں جو سرخ ایپرن باندھے مچھلیاں صاف کر رہے ہیں جبکہ پس منظر میں چھوٹی کشتیاں دکھائی دے رہی ہیں (© Haiyun Jiang/The New York Times/AP)
امریکہ بحر ہند و بحرالکاہل میں اپنی شراکت کاری کو فروغ دے رہا ہے۔ اوپر کی تصویر میں نائب صدر ہیرس (بائیں سے تیسریں) 22 نومبر 2022 کو فلپائن کے صوبے پالاوان کے گاؤں ٹبگروس میں مچھلیاں صاف کرنے والے کارکنوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ (© Haiyun Jiang/The New York Times/AP)

امریکہ اور اس کے بحرہند و بحرالکاہل کے شراکت کار ملکی سرحدوں سے ماورا کووڈ-19 اور موسمیاتی بحران جیسے خطرات سے نمٹتے ہوئے ایک زیادہ آزاد، کھلے اور مربوط  خطے کی تعمیر کر رہے ہیں۔

صدر بائیڈن نے 23 مئی 2022 کو خوشحالی کے لیے  بحرہند و بحرالکاہل کے اقتصادی ڈھانچے کے آغاز کے موقعے پر کہا کہ “امریکہ بحرہند و بحرالکاہل میں گہری دلچسپی  رکھتا ہے۔ ہم ایک طویل سفر کا عزم کیے ہوئے ہیں اور اپنے دوستوں اور شراکت کاروں کے ساتھ خطے کے مثبت مستقبل کے تصور کی خاطر بھرپور حمایت کرنے کے لیے تیار ہیں۔”

اس فریم ورک کے شراکت کاروں میں آسٹریلیا، برونائی دارالسلام، فجی، بھارت، انڈونیشیا، جاپان، جمہوریہ کوریا، ملائیشیا، نیوزی لینڈ، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام شامل ہیں۔

اِس فریم ورک کا شمار حکومت کی بحرہند و بحرالکاہل کی حکمت عملی کو فروغ دینے کے لیے شروع کیے گئے امریکہ کے منصوبوں میں ہوتا ہے۔ یہ حکمت عملی بحرہند و بحرالکاہل کے شراکت داروں کے ساتھ امریکی عزم کا اعادہ کرتی ہے اور ایک ایسے خطے میں زیادہ سے زیادہ امریکی شمولیت اور تعاون کا تصور پیش کرتی ہے جو دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی اور دنیا کی لگ بھگ دو تہائی معیشت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔

ذیل میں اُن چند ایک طریقوں کا ذکر کیا گیا ہے جن کے تحت امریکہ اور بحرہند و بحرالکاہل کے شراکت دار اکٹھے مل کر کام کر رہے ہیں:-

آزاد اور کھلے خطے کو فروغ دینا

بدعنوانی کا خاتمہ کرنا: دسمبر میں امریکہ نے دنیا کے مختلف ممالک کے بدعنوانی کا مقابلہ کرنے والے افراد کو خراج تحسین پیش کیا۔ اِن میں ملائشیا اور بنگلہ دیش کے بدعنوانی اور ماحولیاتی استحصال کو بے نقاب کرنے والے رپورٹر بھی شامل تھے۔

جمہوریت کی حمایت کرنا: بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ کام کرتے ہوئے امریکہ نے برما کی فوجی حکومت کو اِس کے اقدامات پر جوابدہ ٹھہرانے کو آگے بڑہایا ہے۔ اِس ضمن میں جمہوری طور پر منتخب شدہ حکومت کے خلاف فروری 2021 میں کی جانے والی بغاوت اور مظاہرین کے خلاف تشدد کے ذمہ دار فوجیوں پر پابندیاں لگائی گئی ہیں۔

امریکہ جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی ایسوسی ایشن (آسیان) کے پانچ نکاتی اتفاق رائے کی حمایت کرتا ہے تاکہ برما کو جمہوریت کی طرف واپسی کی راہ پر ڈالا جا سکے۔ برونائی، برما، کمبوڈیا، انڈونیشیا، لاؤس، ملائیشیا، فلپائن، سنگاپور، تھائی لینڈ اور ویت نام آسیان کے رکن ممالک ہیں۔

تعلقات میں گہرائی پیدا کرنا

آسیان ممالک کے لیڈر اور صدر جو بائیڈن [درمیان میں] اجلاس کے موقع پر ایک لائن میں کھڑے ہاتھ ہلا رہے ہیں اور پس منظر میں اجلاس کا ایک بڑا نشان دکھائی دے رہا ہے (© Vincent Thian/AP)
گزشتہ 20 برسوں میں امریکہ نے آسیان ممالک میں صحت کے شعبے میں امداد کی شکل میں 3.63 ارب ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے۔ صدر بائیڈن اور آسیان ممالک کے رہنماؤں کے 12 نومبر 2022 کو نوم پین، کمبوڈیا میں ہونے والے اجلاس کے موقع پر لی گئی ایک تصویر۔ (© Vincent Thian/AP)
آسیان: امریکہ اور آسیان نے 45 برس سے زائد عرصے کے دوران باہمی تعاون کو وسعت دی۔ اس دوران انہوں نے صحت، ٹرانسپورٹیشن اور عورتوں کو بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ ماحول اور آب و ہوا کو بہتر بنانے اور صاف توانائی کو فروغ دینے کے لیے شراکت داری کی ایک جامع حکمت عملی کا آغاز کیا۔ امریکہ نے مالی سال 2022 میں آسیان کے رکن ممالک کو 860 ملین ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی۔

سفارت خانے: سولومن جزائر میں امریکی سفارت خانہ دوبارہ کھل رہا ہے جبکہ پورٹ موریسبی، پاپوا نیو گنی میں امریکی سفارت خانہ حال ہی میں ایک نئی عمارت میں منتقل ہوا ہے۔ پاپوا نیو گنی میں امریکی سفارت خانے کے ناظم الامور، جو زیڈروزنی نے 17 نومبر کو ایک تقریب میں کہا کہ “یہ [پیشرفت] پاپوا نیو گنی، سولومن جزائر، اور وانوآٹو میں جمہوریت، خوشحالی اور سلامتی کی حمایت سے جڑے ہمارے پائیدار عزم کی علامت ہے۔”

کوآڈ: امریکہ، آسٹریلیا، بھارت اور جاپان نے ‘کواڈ’ نامی کثیرالجہتی گروپ کے تحت اپنے تعاون میں گہرائی پیدا کی ہے۔ کواڈ نے ثابت کیا ہے کہ جمہوریتوں کے اکٹھا مل کر کام کرنے سے خطے کو کیسے فائدہ پہنچ سکتا ہے۔

سفارت خانے کی عمارت کے قریب ایک تقریب کے لیے جمع لوگ۔ آسمان پر چمکتا ہوا سورج اور بادل دکھائی دے رہے ہیں (State Dept.)
امریکہ بحرہند و بحرالکاہل میں اپنی سفارتی موجودگی میں اضافہ کر رہا ہے۔ پورٹ موریسبی میں امریکی سفارت خانے کی ایک نئی عمارت کی تصویر۔ (State Dept.)

ایپیک: امریکہ 2023 میں مخففاً ایپک کہلانے والے ‘ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن فورم کی میزبانی کرے گا۔ اس فورم کا مقصد بحرالکاہل کے اردگرد کے ممالک کے درمیان تجارت، سرمایہ کاری اور مشمولہ اور پائیدار ترقی کو فروغ دینا ہے۔ فورم کے اس اجلاس کا مرکزی خیال “سب کے لیے لچکدار اور پائیدار مستقبل کی تخلیق” ہے۔

بزنس فورم: امریکہ اور جاپان نے 12 جنوری کو ٹوکیو میں پانچویں ‘انڈو پیسفک بزنس فورم’ کی مشترکہ میزبانی کی۔ اس کے علاوہ دسمبر 2022 میں کواڈ کے شراکت کاروں نے سڈنی، آسٹریلیا میں ٹیکنالوجی کی تجارت اور سرمایہ کاری کے اپنے فورم کا افتتاحی اجلاس منعقد کیا۔

سکیورٹی کو مضبوط بنانا

آکس:ستمبر 2021 میں آسٹریلیا، برطانیہ اور امریکہ نے “اے یو کے یو ایس” [آکس] کے نام سے سلامتی کی ایک سہ فریقی قریبی شراکت کاری کی بنیاد رکھی۔ یہ شراکت کاری بحرہند و بحرالکاہل اور اس کے علاوہ دوسرے علاقوں میں ہر رکن کے سلامتی اور دفاعی مفادات کی حفاظت کرنے کی صلاحیت مضبوط بنائے گی۔

تباہکاریوں کے دوران اور بعد میں کی جانے والی امدادی کاروائیاں: کواڈ کے شراکت کار انسانی بنیادوں پر کی جانے والی مدد اور تباہکاریوں سے متلعق امدادی کاروائیوں کے ایک نئے منصوبے کے تحت بحرہند و بحرالکاہل میں امدادی کاروائیوں میں پائی جانے والی خامیوں کا تفصیلی جائزہ لیں گے تاکہ خطے میں اِن کاموں میں باہمی رابطہ کاری کو بہتر بنایا جا سکے۔

سرحدوں سے ماوراء خطرات سے نمٹنے کی استعداد کو بہتر بنانا

کووڈ-19: امریکہ بحرہند و بحرالکاہل کے ممالک کے عوام کے لیے کووڈ-19 ویکسین کی 245 ملین سے زائد خوراکوں کے عطیات دے چکا ہے۔ یہ عطیات کوویکس پروگرام اور دیگر شراکت داریوں کے تحت دنیا کے ممالک کو 682 ملین سے زائد خوراکوں کے دیئے جانے والے عطیات کا حصہ ہیں۔ کواڈ ممالک نے امریکہ میں دریافت کی جانے والی کووڈ-19 ویکسینوں کی بھارت میں تیاری کو بڑہانے کے لیے بھی شراکت داری کی ہے تاکہ بحرہند و بحرالکاہل کے خطے میں محفوظ اور موثر ویکسینوں کو پھیلایا جا سکے۔

موسمیاتی تبدیلی: امریکی حکومت صاف توانئی اور نئی موسمیاتی تبدیلیوں کے ساتھ مطابقت پیدا کرنے کے پراجیکٹوں کے لیے 162 ملین ڈالر کی امداد فراہم کر چکی ہے۔

جیسا کہ صدر بائیڈن کہتے ہیں، “اکیسویں صدی کی معیشت کے مستقبل کا بڑی حد تک فیصلہ بحرہند و بحرالکاہل میں ہو گا۔”