داعش کو شمالی عراق اور شام میں اس کے زیرقبضہ علاقوں سے مار بھگایا جا رہا ہے۔ اس کے بعد یہ چیلنج سامنے آ رہا ہے کہ ثقافتی مقامات اور عہدِ قدیم سے تعلق رکھنے والی نوادرات کی فہرست کیسے تیار کی جائے، جو کچھ بچایا جا سکتا ہے اُس کی مرمت کس طرح کی جائے اور کونسا طریقہ اختیار کیا جائے کہ لوگ انہیں دوبارہ دیکھ سکیں۔
امریکہ کا سمتھ سونین ادارہ محکمہ خارجہ کے تعاون سے، عراق کے نوادرات اور ورثے کے سرکاری بورڈ کے ساتھ کام کرنے کے لیے ایک ٹیم عراق کے شہر اربیل روانہ کر رہا ہے۔ یہ ٹیم نویں صدی قبل مسیح کی نئی شوریائی سلطنت کے دارالحکومت، نیمرود کو پہنچنے والے نقصان کا تیز رفتاری سے جائزہ لے گی۔

اِس ٹیم کے اراکین اپنے عراقی ہم منصبوں کے ساتھ مل کرنقصان شدہ نوادرات کو حفاظت سے نکالنے اور دوبارہ محفوظ کرنے اور پتھروں پر کندہ دیومالائی مخلوق اور محل کے دیواروں پر بنائی گئی دیگر اشکال کو نمایاں کرنے کا ایک طویل المدتی منصوبہ بنائیں گے۔
موصل سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع اِس مقام پر قبضہ کرنے کے بعد، 2015ء میں داعش نے شوریائی بادشاہ اشورناصرپال دوئم کے اس محل کو بارود سے اڑا دیا اور پراپیگینڈے کی خاطر اس کی تباہی کی وڈیو بھی بنائی۔ جنگجووًں نے بلڈوزر اور برقی ہتھوڑوں کے ساتھ محل کی دیواروں کو توڑا اور نوادرات کو الٹ پلٹ کر رکھ دیا۔
سمتھ سونین میوزیم کے کنزرویشن انسٹیٹیوٹ میں نوادرات کو محفوظ بنانے کے شعبے کی سربراہ، جیسیکا جانسن اِن نوادرات کو پہنچنے والے نقصان کا اندازہ لگانے اور اِن کی بحالی کا منصوبہ تیار کرنے کو زلزلہ آنے کے بعد کے حالات سے تشبیہ دیتی ہیں۔ جانسن کہتی ہیں، “بنیادی طور پر طریقہِ کار ایک جیسا ہے۔ ہم لوگوں کو سکھاتے ہیں کہ انسانی یا قدرتی تباہی کے بعد کیسے کام کرنا ہے اور ثقافتی ورثے کو کیسے برآمد کرنا اور محفوظ بنانا ہے تا کہ جب تعمیرنو کے بارے میں سوچنے کا وقت آئے تو آپ جتنا ممکن ہو سکے اتنی نوادرات کو محفوظ بنا چکے ہوں۔”
تباہکاری کے باوجود ہو سکتا ہے کہ اُس سے زیادہ نوادرات نکالی جا سکتی ہوں جتنا کے لوگ سوچتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “میں نے ایسے تخمینوں کے بارے میں سنا ہے جن کے مطابق 50 فیصد مجسماتی مواد بچ گیا ہے۔”

آثارقدیمہ کے ماہرین نے یہ جگہ انیسویں صدی کے وسط میں دریافت کی تھی اور حالیہ وقتوں میں ابھی تک انہیں مٹی کے ڈھیروں کے نیچے سے خزینے مل رہے ہیں۔
محکمہ خارجہ کے تعلیم اور ثقافتی معاملات کے بیورو کے مارک ٹیپلن کا کہنا ہے، “جس کو داعش نے تباہ کرنے کی کوشش کی ہے ہم اُسے بحال کرنے کا مصمم ارادہ کیے ہوئے ہیں۔”

مکمل تباہی کے علاوہ داعش نے قدیم نوادرات کو لوٹ کر انہیں بلیک مارکیٹ میں بیچ کر پیسہ بنایا۔ نیمرود، نینوا اور دیگر ثقافتی مقامات میں لوٹ مار کے خطرے کے ساتھ ساتھ، اِن نوادرات تک دہشت گردوں کی پہنچ اور ان کی طرف سے توڑپھوڑ کا بھی خطرہ ہے۔
محکمہ خارجہ کی قدیم ثقافتی ورثے کی ٹاسک فورس کے اینڈریو کوہن کہتے ہیں، “ہمارا مقصد عراقیوں کی ایک ایسی ٹیم اور ایسے لوگ تیار کرنا ہے جو باہر نکلنے اور تخمینے لگانے، اور اِن مقامات کو بہتر بنانے اور آخرکار بحال کرنے کا عمل شروع کر سکیں۔”
مشرق پر تحقیق کرنے والے امریکی سکول کو حال ہی میں 900,000 ڈالر کی رقم موصول ہوئی ہے تا کہ عراق، شام اور پہلی مرتبہ لیبیا میں آثارقدیمہ کو محفوظ بنایا جا سکے۔ 2014ء کے بعد اس علمی تنظیم نے 13,000 مقامات کی تفاصیل مرتب کیں ہیں۔