2014ء میں داعش نے عراق کے نینوا کے میدانی علاقے میں واقع سینٹ جارج کے کیتھولک کلدانی گرجا گھر کو جلایا اور گرجے کے منبر پر لے جا کرعبادت کے لیے آنے والے لوگوں کی گردنیں اڑا دیں۔ تین سال بعد، دسممبر 2017 میں اس گرجا گھر کے عبادت گزاروں نے گرجا گھر کی عمارت کی تزئین و آرائش کی اور اس کے منبر اور دیواروں کو تیل کا غسل دے کر عبادت کے لیے کھول دیا۔

جولائی 2017 میں اپنے شہر کی آزادی کے نتیجے میں، موصل کے عبادت گزاروں کے لیے محفوظ رہ جانے والے واحد گرجا گھر، سینٹ پالز میں لوگوں نے 2013ء کے بعد پہلی مرتبہ کھلے عام کرسمس منائی۔
عبادتوں کے یہ مواقعے اُن علاقوں میں مذہبی آزادی کی تجدید کا مظہر ہیں جن میں سے داعش کو مار بھگایا گیا ہے۔ آج نہ صرف کیتھولک، بلکہ دیگر عیسائیوں اور مسلمانوں کے ساتھ ساتھ یزیدیوں جیسی مذہبی اقلیتیں بھی جنہیں اپنے عقائد کی وجہ سے ظلم و ستم اٹھانے پڑے، آزادی سے عبادت کر سکتی ہیں۔
مئی 2017ء میں سعودی عرب کے دورے کے دوران، صدر ٹرمپ نے پُرتشدد انتہا پسندی اور اقلیتوں اور دیگر لوگوں پر پڑنے والے اس کے نقصان دہ اثرات سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نے بین الاقوامی برادری سے “بے گناہ مسلمانوں کے قتل، عورتوں کے ساتھ ظلم، یہودیوں کے ساتھ زیادتیوں، اور عیسائیوں کے قتل عام کے خلاف” کھڑے ہونے کا مطالبہ کیا۔
عراقی افواج کے موصل سے داعش کو مار بھگانے کے چھ ماہ بعد، متشدد انتہا پسندی کا شکار ہونے والوں کو اپنے ضمیر کے مطابق عبادت کرنے کی آزادی دوبارہ ملنا شروع ہو چکی ہے۔

مذہبی آزادی کا فروغ ایک اساسی امریکی قدر ہے اور تحقیق سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ امن، سلامتی، اور استحکام کے لیے یہ ایک بنیادی شرط ہے۔ اگست 2017 میں وزیرخارجہ ریکس ٹِلرسن نے کہا، ” کسی کو خوف میں رہنے، چھپ کر عبادت کرنے یا اپنے عقائد کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ جیسا کہ صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ ہم اُس دن کے منتظر ہیں جب عیسائی اور مسلمان اور یہودی اور ہندو، تمام مذاہب کے ماننے والے اپنے من کی بات مانتے ہوئے، اپنے ضمیر کے مطابق عبادت کر سکیں۔”