متشدد انتہا پسند گروہ بعض اوقات مذہبی اور نسلی اقلیتوں کے افراد کو مظالم کا نشانہ بناتے ہیں۔ اسی طرح داعش نے صدیوں سے اپنے علاقوں میں آباد اقلیتی برادریوں کے وجود کو ختم کرنے کی کوشش کی ہے۔
اسلامی ریاست، آئی ایس آئی ایل اور آئی ایس آئی ایس کہلانے والی، داعش کے زیر کنٹرول علاقوں میں مذہبی اور نسلی اقلیتوں کو تحفظ فراہم کرنے کے طریقوں پر تبادلہ خیال کی خاطر،امریکہ کا محکمہِ خارجہ 29 جولائی کو 20 سے زائد ممالک، اقوام متحدہ اور یورپی یونین کے وفود کا ایک اجلاس بلا رہا ہے۔
اس کے علاوہ، خطے سے تعلق رکھنے والے مذہبی اور شہری لیڈر، 28 جولائی کو جارج ٹاوًن یونیورسٹی میں ہونے والے سول سوسائٹی کے ایک اجلاس میں شرکت کریں گے۔ محمکہِ خارجہ اس اجلاس کا مشترکہ میزبان ہے۔ سرکاری وفود کو سول سوسائٹی کے خدشات اور سفارشات سننے کے لیے اجلاس میں مدعو کیا گیا ہے۔
مارچ میں وزیر خارجہ جان کیری نے کہا، “یزیدیوں، عیسائیوں اور شیعہ مسلمانوں سمیت داعش اپنے زیرِ کنٹرول علاقوں میں کی جانے والی مختلف گروہوں کی نسل کشی کی ذمہ دار ہے۔” کیری نے یہ بھی کہا کہ انسانیت کے خلاف جرائم اور مذکورہ گروہوں کی نسلی معدومی کی بھی ذمہ داری بھی داعش پر عائد ہوتی ہے، بلکہ بعض صورتوں میں سُنی مسلمانوں، کردوں اور دیگر اقلیتوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی بھی داعش ذمہ دار ہے۔
عراق اور شام میں داعش کا نشانہ بننے والی مذہبی اور نسلی اقلیتوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں اور اپنے روایتی آبائی علاقوں میں اِن کمیونٹیوں کا وجود خطرے میں پڑ گیا ہے۔ داعش نے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے؛ ہزاروں یزیدیوں، ترکمانوں، سُنیوں اور شیعوں کو ہلاک کر ڈالا ہے؛ عیسائیوں کو قتل اور اغوا کیا ہے؛ اور یزیدی، ترکمان اور عیسائی عورتوں اور بچوں کو جنسی غلامی قبول کرنے پر مجبور کیا گیا ہے۔
محکمہِ خارجہ کے خصوصی مشیر ناکس ٹیمز کہتے ہیں، “ہمیں یہ سوچنے کے لیے تیار رہنا ہو گا کہ ہم ایک بین الاقوامی برادری کی حیثیت سے — انسانی حقوق، تنوع اور تکثیریت کی اقدار کی حامل ایک برادری کے طور پر — ان گروہوں کی اپنے گھروں کو واپسی کے لیے کیا کر سکتے ہیں تا کہ وہ اُن جگہوں پر زندگی گزاریں جہاں وہ ہزاروں سال سے رہتے چلے آ رہے ہیں اور اُنہیں یہ اعتماد حاصل ہو کہ اپنے آب و اجداد کے علاقوں میں ان کا مستقبل محفوظ ہے۔”
ٹیمز نے کہا، ” داعش کے خلاف ہمارے اتحاد کی عراق میں پیشقدمی کے نتیجے میں وہ دن قریب آتا جا رہا ہے جب ہم موصل اور نینوا کے میدانوں کو آزاد کرا لیں گے۔” یہ علاقہ یزیدیوں، بہت سے عیسائیوں اور شیعہ ترکمانوں کا روایتی وطن ہے۔ اس کے علاوہ سُنی عرب کمیونٹیوں کی اکثریت بھی اس علاقے کو اپنا وطن کہتی ہے۔ ٹیمز نے کہا، ” ہم نے فرانس، ترکی اور دیگر ممالک میں داعش کی شہہ پر کیے والے حملے دیکھے ہیں۔ ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ داعش اپنے نفرت کے نظریے کو پھیلانے اور فروغ دینے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمارا داعش کے اس نظریے کو شکست دینے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ ہم اُس چیز کی حفاظت کریں جسے داعش نابود کرنے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔”