دشوارگزار علاقوں میں رہنے والوں کی ویکسینیشن میں امریکہ کی مدد

امریکہ اور بین الاقوامی شراکت دار اس بات کو یقینی بنا رہے ہیں کہ کووڈ-19 ویکسین پوری دنیا کی دور دراز اور روایتی طور پر سہولتوں سے محروم بستیوں میں رہنے والے لوگوں تک پہنچائی جا سکیں۔

امریکہ بغیر کسی سیاسی شرط کے، ترقی پذیر ممالک اور معیشتوں کے لیے  کووڈ-19 ویکسین کی 600 ملین سے زائد محفوظ اور موثر خوراکیں فراہم کر رہا ہے۔ زیادہ تر عطیات سب سے زیادہ خطرات کا سامنا کرنے والے افراد کے تحفظ کے لیے  ویکسین کی خوراکوں کی مساوی تقسیم کے کوویکس نامی بین الاقوامی شراکت داری کے ایک پروگرام کے ذریعے فراہم کیے جائیں گے۔

کوویکس نے حال ہی میں امریکہ کی طرف سے عطیے کے طور پر دی گئیں کورونا ویکسین کی 151,200 خوراکیں یمن پہنچائیں۔ امریکہ یمن میں پناہ گزینوں اور خطرات کا سامنا کرنے والے دیگر مہاجرین کی کووڈ-19 کا مقابلہ کرنے کی کوششوں کے لیے  مالی امداد فراہم کر رہا ہے۔  اگست میں کوویکس نے امریکہ کی طرف سے عطیے میں دی گئیں کورونا ویکسین کی 302,400 خوراکیں صومالیہ بھی پہنچائیں۔ صومالیہ میں شراکت دار تنظیمیں اندرون ملک بے گھر ہونے والے افراد اور صومالیہ کے خانہ بدوشوں کو ویکسین لگانے کی کوششوں میں تیزی لا رہی ہیں۔

صومالیہ میں صحت کے عالمی ادارے (ڈبلیو ایچ او) کے نمائندے، ڈاکٹر مامون الرحمن ملک نے بتایا کہ یہ انتہائی ضروری ہے کہ ویکسینیں تمام لوگوں تک یکساں طور پر پہنچیں۔ ایک اندازے کے مطابق 26 فیصد صومالی باشندے خانہ بدوش ہیں اور تقریبا 2.6 ملین لوگ ملک کے اندر بے گھر ہیں۔

انہوں نے کہا، “یصرف ریاستہائے متحدہ امریکہ کی حکومت جیسے عطیات دہندگان کے تعاون سے [ہی یہ ممکن ہوا ہے کہ ہم] تمام اہل لوگوں، خاص طور پر کمزور آبادیوں اور دشوارگزار مقامات پر رہنے والوں تک پہنچ سکیں گے۔”

 کنارے کے قریب دو چھوٹی کشتیوں میں بیٹھے لوگ۔ (© Patrick Onen/AP Images)
اپریل میں کووڈ- 19 کی ویکسین لگوانے کے بعد ایک بوڑھی عورت اپنی بیٹی کے ہمراہ یوگنڈا کی جھیل بونیونی کے جزیرے بواما پر واقع صحت کے ایک مرکز سے اپنے گھر جا رہی ہے۔ (© Patrick Onen/AP Images)

امریکہ، یونیسف اور خوراک کے عالمی ادارے کی مدد بھی کر رہا ہے۔ یہ ادارے سڑک کی سہولت سے محروم بعض علاقوں میں رہنے والوں سمیت دور دراز علاقوں میں رہنے والوں تک ویکسینیں پہنچانے کو یقینی بنا رہے ہیں۔

یونیسف کا ادارہ جنوب مغربی یوگنڈا کی جھیل بونیونی کے جزیروں پر کشتی کے ذریعے ویکسینیں پہنچا رہا ہے۔ بواما جزیرے کے رہائشی، سائنس اور ریاضی کے ٹیچر، ایرن ٹوینوموجونی نے ویکسین  لگوانے کے بعد کہا، “میں بہت خوش ہوں کہ ویکسینیں [ہمارے گھروں] کے قریب فراہم کی گئی ہیں۔”

نیپال میں، کووڈ-19 ویکسینوں کی تقسیم کے کاموں میں یونیسیف کے کولڈ چین نامی بنیادی ڈھانچے سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے۔ اس میں صوبائی اور مقامی سطحوں پر طویل عرصے میں تیار کیے جانے والی ٹھنڈے کمرے، ریفریجریٹروں، فریزروں کی سہولتوں کے ساتھ ساتھ ویکسینیں لے جانے کے لیے ٹھنڈے بکسوں کی سہولت بھی شامل ہے۔

کوویکس پروگرام کے تحت ویکسین لگوانے کے بعد نیپال کے 55 سالہ بیر سنگھ کنور نے کہا، “ہر ایک کو اپنی حفاظت کا موقع دیا جانا چاہیے۔”

 بچے کے ہمراہ ایک عورت "وی" کا نشان بنا رہی ہے۔ (© UNICEF/Saman)
عائشہ (بائیں طرف) اردن کے زاتاری پناہ گزین کیمپ میں کووڈ-19 ویکسین لگوانے کے بعد ‘وی برائے ویکسین لگوانے والی’ کا نشان بنا رہی ہیں۔ (© UNICEF/Saman)

امریکہ، اردن اور بنگلہ دیش کی مہموں میں بھی امریکہ مدد کر رہا ہے۔  دونوں ممالک پڑوسی ممالک سے آنے والے پناہ گزینوں کو ویکسینیں لگا رہے ہیں۔ بنگلہ دیش، امریکہ کی طرف سے عطیے کے طور پر دی گئیں ویکسین کی 6.5 ملین خوراکوں کو روہنگیا پناہ گزینوں کو لگانے پر کام کر رہا ہے۔ یہ پناہ گزین برما کی سرحد کے قریب جنوب مشرقی بنگلہ دیش کے علاقے کاکسز بازار میں رہ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین کے مطابق، اگست میں بنگلہ دیش کی حکومت نے کاکسز بازار میں رہنے والے 43,093 روہنگیا پناہ گزینوں میں سے 36,943 یا 85.7 فیصد کو کورونا کی ویکسین لگائی۔

امریکہ نے بنگلہ دیش میں طبی شعبے کے 3,200 کارکنوں اور رضاکاروں کو ویکسینیں لگانے یا ملک کے ویکسینیشن کے کاموں میں مدد کرنے کی تربیت دی ہے۔

شام سے تعلق رکھنے والی 62 سالہ پناہ گزین خاتون، عائشہ نے مارچ میں اردن  میں پناہ گزینوں کے زاتاری کیمپ میں ویکسین لگوائی۔ یہ ویکسین کوویکس پروگرام کے تحت کیمپ میں پہنچائی گئی تھی۔ پناہ گزینوں کے زاتاری کیمپ میں اپریل اور مئی کے مہینوں میں کوویکس پروگرام کے تحت ویکسین کی اضافی خوراکیں بھی فراہم کی گئیں تھیں۔ پوری دنیا میں ویکسینیں لگانے کے کام میں مدد کرنے کے لیے اس پروگرام کے لیے چار ارب ڈالر فراہم کیے جا چکے ہیں۔

عائشہ نے کہا، “اس ویکسین سے سب کو تحفظ ملتا ہے۔ [اس کے لیے] میں انتہائی شکرگزار ہوں۔”