لوگ تباہ شدہ عمارت کے ملبے کو دیکھ رہے ہیں۔ (© AP Images)
29 دسمبر کو امریکی فضائی حملوں کے بعد کتائب حزب اللہ کے عسکریت پسند القائم، عراق میں اپنے تباہ شدہ ہیڈ کوارٹر کو دیکھ رہے ہیں۔ (© AP Images)

عراق اور شام میں ایران کے حمایت یافتہ عسکریت پسندوں کے خلاف امریکہ کے دفاعی فضائی حملے اس بات کا ثبوت ہیں کہ جہاں کہیں بھی ایرانی حکومت کی جارحیت سے امریکی شہریوں یا مفادات کو خطرات لاحق ہوں گے تو امریکہ اس جارحیت کا جواب دے گا۔

29 دسمبر کے حملے عسکریت پسندوں کی طرف سے اتحادیوں کے ایک اڈے پر بار بار کیے جان والے اُن حملوں کے جواب میں کیے گئے جن میں 27 دسمبر کا راکٹوں کا وہ حملہ بھی شامل ہے جس میں ایک امریکی ٹھیکیدار ہلاک ہوا اور چار امریکی سپاہی اور عراقی اہلکار زخمی ہوئے۔

امریکہ کے وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے شام اور عراق میں پانچ ٹھکانوں پر حملوں کے بعد 29 دسمبر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ ” اسلامی جمہوریہ ایران کے ایسے اقدامات کی حمایت نہیں کرے گا جس سے امریکی مردوں اور عورتوں کو خطرات لاحق ہوں۔”

پومپیو نے 30 دسمبر کو کہا ، “یہ ایک ایرانی حمایت یافتہ بدمعاش ملیشیا تھی جو عراقی عوام کی بنیادی خودمختاری کے انکار کے لیے کام کرتی تھی۔” انہوں نے کہا کہ یہ عسکریت پسند گروہ مشرق وسطی میں دہشت گردی پھیلانے کے لئے ایران کی حکومت کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔

اس ملیشیا نے 27 دسمبر کو داعش کو شکست دینے کے عالمی اتحاد کی مدد کے لیے قائم کیے گئے ایک اڈے پر 30 سے زائد راکٹ داغے۔ مارچ میں اتحاد کے ہاتھوں داعش کی خلافت کی تباہی کی وجہ سے اپریل 2015 کے بعد سے، 43 لاکھ عراقی شہری اپنے گھروں کو واپس جا چکے ہیں اور اس گروہ کے زیرقبضہ 110,000 مربع کلومیٹر سے زائد علاقے کو آزاد کرا لیا گیا ہے۔ اکتوبر میں اتحادی افواج نے داعش کے لیڈر ابو بکر البغدادی کو ہلاک کر دیا۔

ستمبر 2018 سے ٹرمپ انتظامیہ یہ بات واضح کیے ہوئے ہے کہ وہ امریکی شہریوں، امریکی فوج، یا امریکہ کے اتحادیوں پر حملے برداشت نہیں کرے گی۔ درحقیقت، دو ہفتے قبل پومپیو نے انتباہ کیا کہ اگر ایرانی آلہ کاروں نے امریکیوں یا امریکی اتحادیوں کو نقصان پہنچایا تو اس کا جواب فیصلہ کن امریکی ردعمل کی صورت میں آئے گا۔

پومپیو نے جب مئی 2018 میں اپنی ایک تقریر میں یہ اعلان کیا کہ ایران کے زیرکمان تمام فورسز شام سے ہر صورت نکل جانا چاہیئیں تو حقیقی معنوں میں اُن کے کہنے کا مطلب یہی تھا۔

پاسدارانِ انقلابِ اسلامی کی سپاہ کی قدس فورس کے ذریعے ایرانی حکومت اپنے آلہ کاروں کے ذریعے شام، عراق، اور یمن میں لڑی جانے والی جنگوں میں اربوں خرچ کر چکی ہے۔ اس کے برعکس ایرانی عوام کو گرتی ہوئی معیشت اور بڑھتی ہوئی قیمتوں کا سامنا ہے۔

عراقی عوام سیاسی طبقے کی ہرجگہ پھیلی بدعنوانی سے تنگ آ چکے ہیں اور امریکہ اُن کے ساتھ کھڑا ہے۔ عراقی عوام آیت اللہ اور اس کے کاسہ لیسوں کا غلبہ نہیں چاہتے۔ یہ کاسہ لیس عراق کے فوجی اڈوں پر جہاں اتحادی افواج بھی موجود ہوتی ہیں حملے کر کے عراقی عوام کی خود مختاری کی خلاف ورزی کرتے ہیں۔