سیاہ فام سپر ہیرو کے مرکزی کردار پر مبنی ہالی وڈ کی پہلی دھماکہ خیز فلم ‘بلیک پینتھر’ عالمی سطح پر دلچسپی کا محور بن چکی ہے۔ اس فلم میں بیشتر کردار سیاہ فام ہیں اور یہ باکس آفس پر نئے ریکارڈ قائم کرنے کے ساتھ ساتھ افریقیوں اور خواتین کے بارے میں گھسے پٹے تصورات کو بھی چیلنج بھی کر رہی ہے۔
یہ فلم اسی نام کی مزاحیہ کارٹونوں کی کہانی پر بنائی گئی ہے جس میں تصوراتی اور مستقبل کے ایک افسانوی اور الگ تھلگ ملک واکینڈا کے بادشاہ، ٹی چالا کو دکھایا گیا ہے۔ ٹی چالا کا کردار چیڈوک بوسمین نے ادا کیا ہے۔ جب اس بادشاہ کو واکینڈا کے لیے خطرے کا باعث بننے والی بدی کی قوتوں کے خلاف جنگ درپیش ہوتی ہے تو وہ چمک دار بلیک پینتھر کا روپ دھار لیتا ہے۔

اپنی نوعیت کی یہ منفرد فلم وسط فروری میں دنیا بھر میں نمائش کے بعد عالمی سطح پر ٹکٹوں کی فروخت سے ایک ارب ڈالر سے زیادہ کما چکی ہے۔ یہ کسی سیاہ فام ہدایت کار (ریان کُوگلر) کے زیرنگرانی بنائی گئی سب سے زیادہ رقم کمانے والی جبکہ مارول سٹوڈیو کی دوسری سب سے کامیاب فلم ہے جس نے ‘دی ایونجرز، آئرن مین اور انکریڈیبل ہلک‘ جیسی زبردست کامیابی سے ہمکنار ہونے والی فلمیں بنائی ہیں۔
یونیورسٹی آف کیلی فورنیا لاس اینجلس میں شعبہ سماجی سائنس کے ڈین ڈیرنل ہنٹ کہتے ہیں، “بلیک پینتھر یہ ثابت کرتی ہے کہ اگر آپ کے پاس شاندار کہانی، باصلاحیت سیاہ فام ہدایت کار و اداکار نیز مارکیٹنگ کا عزم ہو تو سیاہ فاموں کی سرکردگی میں بنائی گئی فلم بھی عالمی سطح پر زبردست کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔”

ہنٹ کا کہنا ہے کہ بلیک پینتھر کو عالمی سطح پر توجہ ملنے کی تین بڑی وجوہات ہیں جن میں پہلی وجہ یہ ہے کہ یہ فلم اس مقبول عام مارول فرنچائز کا حصہ ہے جس کے ناظرین پہلے سے ہی موجود ہیں۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جدید ترین ٹیکنالوجی کی حامل افریقی تہذیب کا تصور ہر طرح کے ناظرین کے تجسس کو ابھارتا ہے اور فلم مقبول ہونے کی تیسری بڑی وجہ یہ ہے کہ اس میں کی گئی اداکاری، ہدایت کاری اور سینماٹوگرافی ‘حیران کن’ ہے۔
ہنٹ کے مطابق “ان وجوہات سے مجموعی طور پر اس فلم کے بارے میں مثبت تاثر نے جنم لیا ہے جس کا فائدہ ناصرف اندرون ملک بلکہ عالمی سطح پر باکس آفس کی کامیابیوں کی صورت میں سامنے آ رہا ہے۔”
خواتین کا نمایاں کردار
افریقی خواتین کو واکینڈا کے سماج کے اہم ستونوں کے طور پر دکھایا گیا ہے۔ شہزادی شوری کا کردار ادا کرنے والی، لٹیٹیا رائٹ اس میں ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کی نگران ہے (حاشیہ دیکھیے۔) ڈینائی گوریرا کا ادا کردہ کردار، اوکوئی، واکینڈا کی عقلمند جرنیل کا ہے۔ اسی طرح نیکیا ایک جاسوس عورت ہے۔ یہ کردار آسکر اعزاز یافتہ اداکارہ لوپیٹا نیونگ او نے ادا کیا ہے جبکہ اینجیلا بیسیٹ اس فلم میں واکینڈا کی ریمونڈا کے نام سے مادر ملکہ، کے روپ میں نظر آتی ہیں۔

بلیک پینتھر کو دنیا بھر سے متنوع عملے کی اداکاری کرنے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ مثال کے طور پر نیونگ او کینیا سے تعلق رکھنے والے والدین کے ہاں میکسیکو میں پیدا ہوئیں۔ گوریرا نے زمبابوے سے تعلق رکھنے والے والدین کے ہاں آئیوا میں جنم لیا جبکہ رائٹ گیانا میں پیدا ہوئیں اور انگلینڈ میں پرورش پائی۔
سیاہ فام امریکی اداکار بوسمین، بیسیٹ اور مائیکل بی جارڈن نیز آسکر اعزاز یافتہ فاریسٹ وِٹیکر اور گولڈن گلوب اعزاز کے حامل سٹرلنگ کے براؤن بھی ان میں شامل ہیں۔ دیگر اداکاروں کا تعلق انگلستان، آئیوری کوسٹ، جنوبی افریقہ، ٹرینیڈاڈ اینڈ ٹوبیگو اور یوگنڈا سے ہے۔
گھسے پٹے تصورات کا توڑ
ٹولین یونیورسٹی میں نفسیات کی پروفیسر لاری او برائن کہتی ہیں کہ بلیک پینتھر اور ہڈن فگرز جیسی فلمیں جن میں سیاہ فام خواتین کو سائنس، ریاضی، ٹیکنالوجی اور انجینئرنگ کے میدانوں میں نئی بلندیاں چھوتے دکھایا جاتا ہے، دراصل ایک مثبت قوت ہونے کے ساتھ ساتھ اس تصور کی نفی بھی کرتی ہیں کہ سیاہ فام خواتین ان شعبہ جات میں اچھی کارکردگی نہیں دکھا سکتیں۔
اوبرائن کا کہنا ہے، “ایسی فلمیں دیکھنے والی سیاہ فام خواتین اور لڑکیاں کہہ سکتی ہیں ‘ارے واہ، میں خود کو اس جیسا دیکھ سکتی ہوں، وہ بہت زبردست ہے۔”

ہنٹ کا کہنا ہے کہ ہالی وڈ کی دوسری فلموں کے برعکس بلیک پینتھر میں سیاہ فاموں کو ضمنی یا چھوٹے کرداروں میں یا کسی اور طرح کے گھٹیا کرداروں میں نہیں دکھایا گیا۔ واکینڈا میں افریقی اپنی قسمت کے خود مالک ہیں۔ وہ کہتے ہیں، “یہ فلم افریقی لوگوں کے حوالے سے سالہا سال تک پیش کیے جانے والے منفی اور غیرانسانی تاثر کی نفی کرتی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہی وجہ ہے کہ یہ فلم دنیا بھر میں سیاہ فام لوگوں کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔”
بلیک پینتھر کی بے مثال کامیابی کے بعد ڈزنی نے ‘کلب آف امریکہ’ کو دس لاکھ ڈالر عطیے میں دیئے ہیں۔ یہ ایک غیرمنفعتی تنظیم ہے جو کم آمدنی والے گھرانوں کے بچوں کی معاونت اور سائنس، ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اور ریاضی میں نوجوانوں کے پروگراموں کی مالی مدد کرتی ہے۔ والٹ ڈزنی کمپنی دراصل بلیک پینتھر بنانے والے مارول سٹوڈیو کی مالک کمپنی ہے۔
یہ مضمون فری لانس لکھاری لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا۔

بلیک پینتھر کی شہزادی شوری ایک کمیاب اور فرضی دھات وائبرینیم سے جدید ترین آلات تیار کرتی ہیں جن سے واکینڈا کو طاقت ملتی ہے اور دنیا اس پر رشک کرتی ہے۔
شہزادی شوری کی لیبارٹری سے چند اشیا کی جھلک:

•ٹی چالا کا بلیک پینتھر والا بلٹ پروف لباس اور نقاب حرکی توانائی جذب کرتا ہے اور یہ قوت حملہ آوروں کے خلاف کام آتی ہے۔

•جنگجوؤں کے وائبرینیم سے بندھے کیمویو منکے جو ٹیکنالوجی سے متعلق متعدد مقاصد بشمول سی آئی اے کے تصوراتی ایجنٹ کو گولی کے زخم سے صحت یاب ہونے میں مدد دیتے ہیں۔

•وائبرینیم سے بنی دستی بندوقوں سے غراتے چیتوں کی شکل کا توانائی کا زوردار جھٹکا نکلتا ہے۔ شوری واکینڈا میں نظم و ضبط کی بحالی میں مدد کے لیے انہیں لڑائی میں استعمال کرتی ہے۔