
دنیا ایرانی عوام کے احتجاجوں کو دیکھ رہی ہے اور اُن کی آوازوں کو سن رہی ہے۔
سوشل میڈیا کی مختلف سائٹوں پر ایران کی قیادت اور معیشت کی خستہ حالی کے خلاف ہونے والے 25 جون کے احتجاجی مارچ میں حصہ لینے والے سینکڑوں ایرانیوں کی تصاویر سامنے آئی ہیں۔ حکمران طبقے کی طرف سے معاشی بدنظمی اور حکومت کی دیگر ناکام پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے تہران کے بڑے بازار میں تاجروں نے اپنی دکانیں بند کردیں جس کے بعد لوگوں کے ہجوم اس بازار میں جمع ہو گئے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے ایک ٹویٹ میں لکھا، “#Iran [ایران] کی بدعنوان حکومت ملکی وسائل اسد، حزب اللہ، حماس اور حوتیوں پر ضائع کر رہی ہے جبکہ ایرانی [اپنی زندگیاں گزارنے کے لیے] ہاتھ پاؤں مار رہے ہیں۔ #IranProtests یعنی ایران میں جاری احتجاجوں پر کسی کو حیرانگی نہیں ہونی چاہیے۔ عوام اپنے لیڈروں کی بدعنوانی، نا انصافی اور نااہلی کے ہاتھوں تنگ آ چکے ہیں۔ دنیا اُن کی آواز سن رہی ہے۔”

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق کرنسی کی شرح تبادلہ کو قابو میں لانے کی حکومتی کوششوں کے باوجود ملک کی بلیک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں ایرانی ریال گر کر 90,000 کی سطح پر آ گیا ہے۔
ایران کے لوگ روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ معیشت کو بہتر بنانے کی بجائے ایرانی حکومت بین الاقوامی دہشت کی حمایت میں اربوں باہر بھجوا رہی ہے۔
25 جون کو تہران میں ہونے والے احتجاج کا شمار 2012 کے بعد دارالحکومت میں ہونے والے بڑے بڑے احتجاجوں میں ہوتا ہے۔ یہ احتجاج حکومتی ناکامیوں پر گزشتہ برس دسمبر اور جنوری 2018 میں ایرانی صوبوں میں ہونے والے بڑے مظاہروں کے بعد ہوا ہے۔ ان کے دوران ہزاروں لوگوں کو گرفتار کیا گیا اور درجنوں لوگوں کو مار ڈالا گیا۔