
دہشت گردوں، فاتح طاقتوں اور قدرتی آفات سمیت تمام قوتیں مذہبی و نسلی اقلیتوں کی ملکیتی خاص جگہوں کو تباہ کر سکتی ہیں۔ مگر امریکی معاونت سے کی جانے والی کوششوں کی بدولت یہ امر یقینی بنایا جا رہا ہے کہ نقصان کا شکار ہونے والے ان قیمتی خزینوں کی تعمیرومرمت کر کے انہیں آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بنا دیا جائے۔

مذہبی اقلیتوں کے لیے دفتر خارجہ کے خصوصی مشیر ناکس ٹیمز کا کہنا ہے کہ ”ہم عالمی تاریخ میں دیگر ثقافتوں اور تہذیبوں کی خدمات کو سراہتے ہیں۔ ہمیں یہ بھی احساس ہے کہ امریکی قوم ایسے افراد پر مشتمل ہے جن کے آبا و اجداد کا تعلق دنیا بھر میں پھیلی ہوائی اقوام سے ہے۔ اسی وجہ سے امریکی شہریوں کا بھی اِن مقامات سے ایک رشتہ بنتا ہے۔”
دفتر خارجہ کی معاونت سے سمتھسونین انسٹیٹیوشن عراق کے”آثار قدیمہ اور ورثے کے ریاستی بورڈ” کے ساتھ مل کر داعش کے دہشت گردوں کے ہاتھوں نویں صدی قبل مسیح میں نو آشوری سلطنت کے دارالحکومت نمرود کو پہنچنے والے نقصان کا مرمت کے ذریعے ازالہ کر رہا ہے۔
ثقافتی تحفظ کے لیے سفیروں کا فنڈ امریکی حکومت کی جانب سے ثقافتی، نسلی اور تاریخی اہمیت کے مقامات کی بحالی اور انہیں محفوظ بنانے میں مدد دینے کا ایک طریقہ ہے۔
امریکہ جن جگہوں کو محفوظ بنانے میں مدد دے رہا ہے ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں:
مصر

قاہرہ میں ‘مُردوں کے شہر’ میں واقع امام محمد الشافعی کا 13ویں صدی کا مقبرہ امام الشافعی کی آخری آرام گاہ ہے جن کا شمار سنی اسلام کی ممتاز شخصیات اور اس کے اہم فقہوں میں سے ایک کے بانی کی حیثیت سے ہوتا ہے۔ اس منصوبے میں درگاہ کی بیرونی دیواروں اور گنبد کی تفاصیل کو دستاویزی شکل دینا اور ان کا تحفظ شامل ہے۔
شام

شام میں پالمیرا کے قدیم مقام کے بحال شدہ کھنڈرات اکتوبر 2015 میں داعش کے ہاتھوں جزوی تباہی کا شکار ہونے سے قبل مقامی اور قومی تفاخر کی علامت تھے۔ اگلے برس یعنی 2016ء میں امریکی کانگریس نے شام سے ثقافتی نوعیت کی اشیا کی درآمد پر ہنگامی پابندیاں عائد کیں تاکہ ملک کے ثقافتی ورثے پر مشتمل مقامات کو لوٹ مار سے محفوظ رکھا جا سکے اور دہشت گردوں کے نیٹ ورکوں کی جانب سے ثقافتی اہمیت کی قدیم اشیا کی غیر قانونی خریدوفروخت کی روک تھام کی جا سکے۔
سری لنکا

مشرقی سری لنکا کے ضلع امپارا میں واقع ‘راجاگالا آرکیالوجیکل ریزرو’ میں بہت سی قدیم عمارتوں اور یادگاروں کی باقیات ہیں جو کبھی ایک بہت بڑی بدھ خانقاہ گریکم بھیلا کا حصہ ہوا کرتی تھیں۔ یہ خانقاہ دوسری صدی میں اپنے قیام سے لے کر 13ویں صدی کے اوائل تک فعال رہی۔ اس منصوبے پر کام تاریخی مقامات محفوظ بنانے کے لیے قائم کیے گئے سفیروں کے فنڈ کے تحت ماضی میں دی جانے والی امداد سے شروع کیا گیا تھا۔ یہ کام ہنوز جاری ہے۔
جولائی 2018 میں مذہبی آزادی کو فروغ دینے سے متعلق وزارتی اجلاس کے دوران مذہبی ثقافتی ورثے کو محفوظ بنانے کے بارے میں ایک پینل کی میزبانی کرتے ہوئے ٹیمز نے کہا، ”ہمیں عظیم ثقافتی روایات کے حامل ان مقامات کی اس لیے فکر ہے کہ وہ دنیا کی تاریخ اور اکثر اوقات امریکیوں کی تاریخ کا حصہ بھی ہوتے ہیں۔”
یہ مضمون فری لانس مصنفہ، لینور ٹی ایڈکنز نے تحریر کیا۔