دنیا بھر میں سمندری کچرے سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی نئی حکمت عملی

ساحل پر پڑی پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتل (© Wayne Parry/AP Images)
اپریل 2019 میں سینڈی ہک، نیو جرسی کے ساحل پر پڑی پلاسٹک کی استعمال شدہ بوتل نظر آ رہی ہے۔ (© Wayne Parry/AP Images)

امریکہ پلاسٹک کو دنیا کے سمندروں میں جانے سے روکنے کے لیے بین الااقوامی شراکت داروں کی کچرے سے نمٹنے کے طریقہائے کار میں مدد کر رہا ہے۔

سمندری کچرے کے عالمگیر مسائل سے نمٹنے کے لیے امریکہ کی وفاقی حکمت عملی 19 اکتوبر کو جاری کی گئی۔ اس میں پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے عالمگیر کوششوں کو تقویت پہنچانے کے منصوبوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ پلاسٹک کی آلودگی سے ماحول کو نقصان پہنچتا ہے اور یہ خوراک اور سیاحت پر چلنے والی معیشتوں کے لیے خطرہ بنتی ہے۔

ماحولیاتی تحفظ کے ادارے کے منتظم، اینڈریو ویلر نے کہا، “بین الاقوامی طور پر ہر سال 28 ارب پاؤنڈ [12.7 ملین میٹرک ٹن] کچرا سمندر میں جا گرتا ہے جو سمندری حیات اور ساحلی معیشتوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔ سمندری کچرے کا شمار اس انتظامیہ کی اولین ترجیحات میں ہوتا ہے اور اپنے عالمی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرتے ہوئے ہمارا مقصد یہ ہے کہ  اپنے مشترکہ سمندروں سے دن بدن بڑھتے ہوئے سمندری کچرے کے موجودہ مسئلے کو حل کیا جائے۔”

 کچرے سے اٹے ساحل میں سے ایک آدمی دو بالٹیاں اٹھائے جا رہا ہے (© Jes Aznar/Getty Images)
منیلا، فلپائن میں 18 اپریل 2018 کو ایک آدمی مچھلیاں اٹھائے پلاسٹک کے کچرے میں سے گزر رہا ہے۔ (© Jes Aznar/Getty Images)

ہر سال 7.3 ملین میٹرک ٹن پلاسٹک دنیا کے سمندروں میں جا گرتا ہے جس سے 264 ارب ڈالر کا نقصان ہوتا ہے۔ حکمت عملی کی ایک دستاویز کے مطابق آدھے سے زیادہ سمندری کچرا ایشیا میں واقع پانچ ممالک سے آتا ہے جس میں 2016ء کے دوران سمندروں، جھیلوں اور دریاؤں میں گرنے والے پلاسٹک کے کچرے میں سے 7.4 فیصد کچرے کا ذمہ دار چین ہے۔

صدر ٹرمپ نے 2018ء میں “اپنے سمندروں کو بچاؤ” کے نام سے ایک قانون پر دستخط کیے اور ہدایت کی امریکی حکومت ملک میں اور بیرون ملک سمندری کچرے میں مزید کمی لائے۔ حکمت عملی کی ایک دستاویز کے مطابق یہ نئی کوشش اس لیے سامنے آ رہی ہے کیونکہ 2050 تک عالمی کچرے کی 1.8 ارب میٹرک ٹن سالانہ کی موجودہ مقدار سے بڑھکر 3.08 ارب میٹرک ٹن سالانہ ہو جائے گی۔

یہ حکمت عملی دنیا بھر کے سمندری کچرے کو کم کرنے کے لیے چار بڑے اقدامات کا خاکہ بیان کرتی ہے:

  • کچرے کی انتظام کاری کی صلاحتیوں میں اضافہ کرنا۔
  • نجی شعبے کی شراکت سے عالمگیر ری سائیکلنگ کی مارکیٹ کے لیے ترغیبات فراہم کرنا۔
  • اختراعی ٹکنالوجیوں اور مسائل کے حلوں کے لیے تحقیق اور ترقی کو فروغ دینا۔
  • کچرے کو اٹھا کر لے جانے کو فروغ دینا جس میں سمندروں اور دریاؤں میں کچرے کو اکٹھا کرنا بھی شامل ہے۔

یہ منصوبہ سمندری کچرے کو کم کرنے کی کئی ایک امریکی کوششوں کو آگے بڑھاتا ہے۔ اِن کوششوں میں ای پی اے کا کچرے سے پاک پانیوں کا منصوبہ بھی شامل ہے جس کے تحت آگاہی پھیلانے، کچرہ جمع کرنے یا دیگر کاوشوں کے ذریعے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کچرے کے ذرائع کو کم کرنے پر کام کیا جاتا ہے۔

امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے (یو ایس ایڈ) کے صاف شہر، نیلے سمندر پروگرام کے تحت ایشیا اور لاطینی امریکہ کے ممالک میں تیزی سے بڑھتے ہوئے شہروں میں پلاسٹک کی آلودگی کو کم کرنے کے لیے پانچ سالوں میں 48 ملین ڈالر کی امداد دی جا رہی ہے۔ یہ مقصد کوڑے کرکٹ کے انتظام کاری کے نظاموں کو بہتر بنا کر اور رویوں میں تبدیلی کی حوصلہ افزائی کرکے حاصل کیا جائے گا۔

یو ایس ایڈ نے اکتوبر 2016 میں 14 ملین ڈالر کی لاگت سے کچرے کی ری سائیکلنگ کے پروگرام کا آغاز کیا۔ اس کے تحت انڈونیشیا، فلپائن، سری لنکا اور ویت نام میں مقامی اداروں کی سربراہی میں مسائل کے اختراعی اور دیرپا حلوں کے حامل 30 منصوبوں کے لیے امدادی رقومات فراہم کیں۔

ایسے شہروں میں کچرے کی انتظام کاری کو بہتر بنانے کے لیے جہاں سے سمندر میں کچرہ آتاہے، یو ایس ایڈ، پلاسٹک کے کچرے کے خاتمے کے اتحاد اور نجی شعبے کے ساتھ  مل کر نئے کاروباری نمونے اور ٹکنالوجیاں متعارف کرانے میں شراکت کاری کر  رہا ہے۔ پلاسٹک کے کچرے کو ختم کرنے کے لیے اس اتحاد نے 50 سے زائد اُن کمپنیوں کا اجلاس بلایا ہے جو مجموعی طور پر اس مسئلے کے حل کے لیے 1.5 ارب ڈالر کے وعدے کر چکی ہیں۔

جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیا میں ری سائکلنگ کے شعبے میں نجی شعبے کو مہمیز دینے کے لیے، یو ایس ایڈ نے یو ایس انٹرنیشنل فنانس کارپوریشن کے تعاون سے قرضوں کی جزوی ضمانتوں کے طور پر 35 ملین ڈالر کی ضمانتیں فراہم کیں ہیں۔

یو ایس ایڈ کے قائم مقام منتظم، جان برسا نے 19 اکتوبر کو ایک بیان میں کہا، ” صدر ٹرمپ کے تصور کے مطابق، امریکہ کا بین الاقوامی ترقیاتی ادارہ سمندروں میں پلاسٹک کی الودگی کو کم کرنے کے لیے کلیدی اہمیت کے حامل ممالک کی مقامی حکومتوں، کمیونٹیوں اور نجی شعبے کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔”