دنیا بھر میں پھیلے انسانی سمگلنگ کا مقابلہ کرنے والے ہیرو

حفاظتی تدابیر کے سائن کے قریب بیٹھی ہوئی ایک خاتون (© Andreea Alexandru/AP Images)
'سیو دا چلڈرن' نامی تنظیم کی ایک رضاکار خاتون 7 مارچ کو رومانیہ کے شہر سائرت میں رومانیہ اور یوکرین کی سرحد پر بینر کے ساتھ بیٹھی ہوئی ہیں۔ (© Andreea Alexandru/AP Images)

امریکی محکمہ خارجہ کی 19 جولائی کو جاری کی جانے والی انسانی سمگلنگ کی رپورٹ کے مطابق انسانوں کی سمگلنگ کرنے والوں نے 2021 اور 2022 میں بھی کمزور اور پسماندہ طبقات سے تعلق رکھنے افراد کا استحصال کرنا جاری رکھا۔

وزیرخارجہ اینٹونی بلنکن نے 19 جولائی کو محکمہ خارجہ میں اس رپورٹ کے مندرجات کا اعلان کیا۔ اس موقعے پر انہوں نے کہا کہ “اِس مسئلے سے متاثر ہونے والے افراد کی تعداد بہت زیادہ ہے” اور اس وقت میں تقریباً 25 ملین افراد اِس کا شکار ہیں۔ “امریکہ نے اس کے خلاف جنگ کرنے کا عزم رکھا ہے کیونکہ سمگلنگ معاشروں میں عدم استحکام پیدا کرتی ہے، یہ معیشتوں کو نقصان پہنچاتی ہے، یہ محنت کش کارکنوں کو نقصان پہنچاتی ہے، اس سے وہ لوگ دولت مند ہوتے ہیں  جو اِن [لوگوں] کا استحصال کرتے ہیں، یہ قانون کے مطابق چلنے والے کاروباروں کو نقصان پہنچاتی ہے، کیونکہ بنیادی طور پر یہ انتہائی غلط کام ہے۔”

اِس رپورٹ میں یہ تفصیل بھی بیان کی گئی ہے کہ یوکرین پر فروری میں کیے جانے والے روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن کے حملے کے بعد انسانی سمگلنگ کے خطرات میں کس طرح اضافہ ہوا ہے۔

بلنکن نے رپورٹ کے بارے میں اپنے تعارفی کلمات میں کہا کہ “ہمیں جنگ سے اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کے ساتھ ساتھ یوکرین سے [اپنی جانیں بچا کر] فرار ہونے والے افراد کو انسانی سمگلنگ سے لاحق خطرات سے بھی بہت زیادہ تشویش ہے۔ اِن میں سے 90 فیصد خواتین اور بچے ہیں۔ خوراک کے عدم تحفظ اور روس کی جنگ کے دیگر وسیع اثرات دنیا بھر میں سمگلنگ کے خطرات میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔”

اِس رپورٹ میں اپنے اپنے ملکوں میں انسانی سمگلنگ سے نمٹنے میں مدد کرنے والوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے علاوہ انسانی سمگلنگ کی رپورٹ کے چھ ہیروز کو بھی خراج تحسین پیش کیا گیا۔ اِن میں سے پانچ محکمہ خارجہ کے بین الاقوامی لیڈر شپ پروگرام کے مہمان ہوں گے تاکہ وہ انسانی سمگلنگ کے خاتمے کے لیے کام کرنے والی امریکی کمیونٹیوں اور تنظیموں کے لوگوں سے مل سکیں اور تبادلہ خیالات کر سکیں۔ اِن افراد کا ذکر ذیل میں کیا جا رہا ہے:-

 عینک پہنے ہوئے محمد طارق الاسلام کی تصویر (Courtesy of Mohammed Tariqul Islam)
(Courtesy photo)

محمد طارق الاسلام نے برطانیہ میں قائم “جسٹس اینڈ کیئر” نامی ایک  غیرمنفعتی تنظیم کی 2017 میں بنگلہ دیش میں برانچ کھولی۔ وہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے دو ہزار سے زائد افراد کی مطلوبہ خدمات کے حصول میں مدد کرنے کے لیے دیگر تنظیموں کی قیادت کر چکے ہیں۔ طارق الاسلام آج کل ‘جسٹس ایند کیئر’ کی بنگلہ دیش برانچ کے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی وطن واپسی میں تعاون کرنے کے لیے بنگلہ دیش اور بھارت میں مذاکرات بھی کر چکے ہیں۔


 اردنی پرچم کے ساتھ محمد الخلافت کی تصویر (Courtesy of Mohammad al-Khlaifat)
(Courtesy photo)

میجر محمد الخلافت اردنی پولیس کے پبلک سکیورٹی ڈائریکٹوریٹ کے انسداد سمگلنگ یونٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ اردن کے سرکاری اداروں اور غیر سرکاری بین الاقوامی تنظیموں کے مابین تعاون کو مضبوط بنانے کا کام کرتے ہیں۔ الخلافت نے سمگلنگ کا شکار ہونے والوں کو تحفظ اور امدادی خدمات کی فراہمی کے حصول کو یقینی بنانے کے لیے سماجی ترقی کی وزارت اور ‘اردنی خواتین کی یونین’ کے درمیان تعاون میں معاونت کی۔ یہ یونین عورتوں کی ایک پناہ گاہ ہے۔ وہ انسانی سمگلنگ کا پتہ چلانے کے لیے پناہ گزین کیمپوں میں موجود پولیس کے رابطہ کاروں کی راہنمائی بھی کر چکے ہیں۔


 امریکی پرچم کے ساتھ کارنیلیئس وینا کی تصویر (State Dept.)
(Courtesy photo)

لائبیریا میں خانہ جنگی کے بعد جج کارنیلیئس وینا نے ملک کے سمگلنگ کے ریکارڈ کو بہتر بنانے میں مدد کی۔ انہوں نے اس سال کے شروع میں جج کا حلف اٹھایا۔ اس سے پہلے وہ سنگین جرائم کے شعبے کے سربراہ اور وزارت انصاف میں سرکاری وکیل کے طور پر کام کرتے رہے ہیں۔ اِن عہدوں پر کام کرتے ہوئے انہوں نے انسداد سمگلنگ سے متعلقہ مقدمات میں تفتیش، مقدمات کی پیروی اور اور مشاورت کے فرائض ادا کیے۔ وینا نے ججوں کے لیے سمگلنگ کے بارے میں ایک کتاب اور قانون نافذ کرنے والے اداروں اور  سرکاری وکلاء کے لیے انسانی سمگلنگ کے مقدمات سے متعلق بہترین طریقوں پر مشتمل ایک ہینڈ بک بھی تیار کی۔


 چہرے کے نیچے ہاتھ کی ٹیک لگائے ہوئے ایرینا داود-اولچک (Courtesy of Irena Dawid-Olczyk)
(Courtesy photo)

ایرینا داود-اولچک انسانی حقوق کی ایک سرگرم رکن اور پولینڈ میں قائم ‘ لا سٹراڈا’ نامی تنظیم کی صدر ہیں۔ لا سٹراڈا انسانی سمگلنگ کے خلاف یورپ کا ایک این جی او پلیٹ فارم ہے۔ یہ تنظیم انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والے افراد کی مدد کرنے کے لیے پولینڈ کی حکومت کے ساتھ کام کرتی ہے۔ فروری میں پولینڈ اور یوکرین کی سرحد پر پناہ گزینوں کے بحران کے آغاز کے بعد سے اِس تنظیم نے یوکرین سے آنے والے پناہ گزینوں سے متعلق بنیادی حفاظتی راہنما قوانین کے لیے رہنما خطوط وضح کیے۔ اس کے علاوہ اس تنظیم نے ایسے خطرناک حالات سے نمٹنے کے لیے ایک ہاٹ لائن کے لیے عملے کا بندوبست بھی کیا جن کا ممکنہ تعلق انسانی سمگلنگ سے ہو سکتا ہے۔


 اپینیا تاجیت کی تصویر (State Dept.)
(Courtesy photo)

اپینیا تاجیت ‘سٹیلا میریس سیفیئرر کے مرکز’ کی ڈپٹی ڈائریکٹر ہیں۔ یہ مرکز تھائی لینڈ کی ایک این جی او ہے جو تھائی لینڈ کی ماہی گیری کی صنعت میں کام کرنے والوں کو خدمات فراہم کرتی ہے اور اُن کی مدد کرتی ہے۔ تاجیت تھائی لینڈ، انڈونیشیا، کمبوڈیا، برما اور بنگلہ دیش کے ماہی گیروں کو سمندر میں سمگلنگ کی نشاندہی کرنے کے بارے میں آگائی دیتی ہیں۔ تاجیت تھائی حکام کی متاثرین کی شناخت کے عمل میں مدد کرنے کے علاوہ انسانی سمگلنگ کا شکار ہونے والوں کو دوبارہ معاشرے میں ضم ہونے میں بھی مدد کرتی ہیں۔


 مسکراتی ہوئی کیتھرینا شیرا پاکھا کی تصویر (Courtesy of Kateryna Cherepakha)
(Courtesy photo)

کیتھرینا شیرا پاکھا ‘لا سٹراڈا-یوکرین’ کی صدر ہیں۔ یوکرین کے خلاف روسی جنگ کے آغاز کے بعد سے لاسٹراڈا کی ٹیلی فون ہاٹ لائنوں پر موصول ہونے والی کالوں کی تعداد میں بہت زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ شیرا پاکھا کی قیادت میں انسانی سمگلنگ اور استحصال سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کے لیے یوکرین کے ہزاروں شہری انتہائی اہم معلومات تک رسائی حاصل کرنے کے قابل ہوئے۔