
دنیا بھر کی اقوام نے وینیزویلا کے صدر نکولس مادورو کی طرف سے 30 جولائی کو منعقد کیے جانے والے انتخابات کی مذمت کی ہے۔ اِن انتخابات کے نتیجے میں آئین کو ازسرِنو تحریر کیا جائے گا جس سے مادورو کو وسیع پیمانے پر نئے اختیارات حاصل ہو جائیں گے۔
وزیرخزانہ سٹیون منوچن نے 31 جولائی کو وائٹ ہاؤس کی ایک پریس بریفنگ میں کہا، “غیر قانونی انتخابات اِس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ مادورو ایک مطلق العنان حکمران ہے اور وہ وینیزویلا کے عوام کی رائے کا احترام نہیں کرتا۔” اسی پریس بریفنگ کے دوران وزیرخزانہ نے اعلان کیا کہ امریکہ نے مادورو پر مالی پابندیاں عائد کردیں ہیں۔
دنیا بھر کے حکام نے بھی اسی طرح کے جذبات کا اظہار کیا ہے
- امریکی ممالک کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل، لوئس الماگرو نے انتخابات کو “قطعی طور پر رد” کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ انتخابات “شفافیت، غیرجانبداریت اور عالمگیریت کے اُن بنیادی اصولوں کا خون کر کے منعقد کیے گئے ہیں جن سے آزادانہ اور منصفانہ انتخابات عبارت ہوتے ہیں۔” یہ تنظیم امریکی براعظموں کے 35 آزاد ممالک کی نمائندگی کرتی ہے۔
- اسی طرح کینیڈا نے بھی 30 جولائی کے انتخابات کی مذمت کی ہے۔ خارجہ امور کی وزیر، کرسٹیا فری لینڈ نے اپنے ایک بیان میں کہا، “یہ آئین ساز اسمبلی وینیزویلا کے عوام سے اُن کے بنیادی جمہوری حقوق چھین کر ملک میں کشیدگی میں مزید اضافہ کرے گی۔”
- برطانیہ کے وزیرخارجہ، بورِس جانسن نے خبردار کیا ہے کہ وینیزویلا “تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اور مادورو کی حکومت کو فوری طور پر رک جانا چاہیے اس سے قبل کہ بہت دیر ہو جائے۔”
- اسی اثنا میں جرمنی میں، خارجہ امور کی وزارت نے کہا کہ وہ آئین ساز اسمبلی کو وینیزویلا کو اپنے اقتصادی اور سماجی بحرانوں سے نکلنے کا مناسب ذریعہ نہیں سمجھتی۔”
امریکہ کا وینیزویلا کے عوام کے لیے حمایت کا اعلان
16 جولائی کو وینیزویلا کے لاکھوں لوگوں نے آئین ساز اسمبلی کی تشکیل کی حکومتی تجویز کو غالب اکثریت سے مسترد کیا۔
17 جولائی کو صدر ٹرمپ نے کہا کہ “وینیزویلا کے عوام نے ایک بار پھر واضح کر دیا ہے کہ وہ جمہوریت، آزادی اور قانون کی حکمرانی کی حمایت کرتے ہیں۔ اس کے باوجود اُن کے مضبوط اور جراتمندانہ اقدامات کو ایک مطلق العنان لیڈر بننے کا خواب دیکھنے والا برا لیڈر، نظرانداز کرتا جا رہا ہے۔”
صدر نے یہ وعدہ کیا کہ اگر مادورو حکومت نے 30 جولائی کو قانون ساز اسمبلی مسلط کی، جو کہ اب کر دی گئی ہے تو امریکہ تیزی سے اقتصادی اقدامات اٹھائے گا۔
امریکی پابندیوں کے نتیجے میں، امریکی دائرہِ کار میں آنے والے مادورو کے تمام اثاثے منجمد کیے جا چکے ہیں اور امریکی شہریوں کو اُن کے ساتھ لین دین کی ممانعت کر دی گئی ہے۔

منوچن نے کہا کہ ہماری انتظامیہ کو امید ہے کہ یہ پابندیاں مادورو حکومت کے حکام کو اس بات پر دوبارہ غور کروائیں گی کہ اُن کے اقدامات نے اُن کے ملک کو کس طرح متاثر کیا ہے۔ انہوں نے کہا، “یہ پابندیاں اُن بھاری قیمتوں اور ذاتی نتائج کو اجاگر کرتی ہیں جن کا اِس کے کارندوں کو اپنی اندھا دھند اور غیرجمہوری کاروائیوں کی صورت میں سامنا کرنا پڑے گا۔”
وزیرخزانہ نے کہا کہ جس کسی نے بھی اِس غیرقانونی آئین ساز اسمبلی میں شرکت کی “اُسے وینیزویلا میں جمہوری عمل اور اداروں کو نقصان پہنچانے کے اپنے کردار کی وجہ سے امریکہ کی مستقبل کی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔”
سیاسی قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ
امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹِلرسن نے یکم اگست کو وینیزویلا کی حکومت کے حزب مخالف کے راہنماؤں، لیوپولڈو لوپیز اور انتونیو لیڈیزما کو دوبارہ جیل میں ڈالنے کے فیصلے پر “گہری تشویش” کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا، “ہم اُن کی فوری رہائی کا مطالبہ کرتے ہیں۔”
اُن کی گرفتاری 30 جولائی کے اُن انتخابات کے دو دن بعد عمل میں آئی جنہیں وزیرخارجہ نے “غیرقانونی” قرار دیا۔ انہوں نے کہا اس کی وجہ سے ملک میں تشدد میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
ٹِلرسن نے “وینیزویلا میں جمہوریت کے دوبارہ قیام” پر زور دیتے ہوئے کہا، “امریکہ کو انسانی حقوق کی شدید زیادتیوں پر گہری تشویش ہے۔”