وبائی امراض کا وہ امریکی ماہر انتقال کر گیا جس کی انتھک قیادت کے نتیجے میں تقریباً 40 سال قبل دنیا کی خوفناک ترین متعدی مرضوں میں شمار ہونے والی چیچک کی مرض کا خاتمہ ہوا۔
جانز ہاپکنز یونیورسٹی کے ایک بیان میں بتایا گیا ہے کہ ڈاکٹر ڈانلڈ “ڈی۔اے” ہینڈرسن جن کی انتقال کے وقت عمر 87 سال تھی، 19 اگست کوریاست میری لینڈ کے شہر، ٹاؤسن میں واقع ضعیف لوگوں کی دیکھ بھال کے ایک مرکز میں کولھے کی ہڈی ٹوٹ جانے کے بعد بعض پیچیدگیوں کی وجہ سے انتقال کر گئے۔ ہینڈرسن “بلوم برگ سکول آف پبلک ہیلتھ” کے سابق ڈین تھے۔
بالٹی مور، میری لینڈ میں یونیورسٹی آف پٹس برگ میڈیکل سینٹر کے شعبے، سینٹر فار ہیلتھ سیکیورٹی کے ٹام انگلزبی نے کہا، “ڈی-اے ہینڈرسن حقیقی معنوں میں دنیا میں ایک بہتر تبدیلی لے کر آئے۔” ہینڈرسن حالیہ ترین دنوں تک اس سینٹر میں ایک ممتاز سکالر کی حیثیت سے کام کرتے رہے۔
1966 میں ہینڈرسن چیچک کے خاتمے کے پروگرام پر اس ادارے میں کام کر رہے تھے جسے آج کل یو ایس سینٹرز فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن [امریکہ کے بیماریوں پر قابو پانے اور روک تھام کے مراکز] کہا جاتا ہے۔ انہی دنوں عالمی ادارۂ صحت نے انہیں دنیا سے چیچک کے خاتمے کے پروگرام کی قیادت کے لیے منتخب کیا تھا۔
We are deeply saddened by the loss of Dr D.A. Henderson
A public health giant, he led WHO #smallpox eradication unit pic.twitter.com/gceB0DJmpp— World Health Organization (WHO) (@WHO) August 22, 2016
ماضی میں بڑے پیمانے پر حفاظتی ٹیکے لگانے کی مہم کے برعکس، طبی کارکنوں نے یہ جنگ در اصل 1967 اور 1977 کے دس برسوں کے دوران اس مرض کی نگرانی اور روک تھام کی حکمت عملی اپنا کرجیتی۔ حال ہی میں مغربی افریقہ میں استعمال کی جانے والی، ایبولا وائرس کے پھیلاوً کو روکنے کی حکمت عملی کی طرح، چیچک کے پراجیکٹ میں بھی مریضوں اور بیماری کے پھوٹ پڑنے پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔ جنوبی امریکہ، مغربی اور وسطی افریقہ، ایشیا اور بالآخر مشرقی افریقہ میں جہاں جہاں یہ بیماری باقی رہ گئی تھی، اسے بتدریج مکمل طور پر ختم کیا گیا۔
قدرتی طور پر چیچک کا مرض لاحق ہونے والے آخری کیس کی تشخیص، 1977 میں صومالیہ میں کی گئی تھی۔ ورلڈ ہیلتھ اسمبلی نے 1980ء میں اس مہلک مرض کے مکمل خاتمے کا اعلان کیا۔
یو ایس سینٹرز فار ڈزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن کے ڈائریکٹر ٹام فریڈین نے کہا، “ان کے شاندار کیریئر کی بدولت کروڑوں لوگوں کی زندگیاں بچانے میں مدد ملی، اور آنے والی نسلوں کی زندگیاں بچانے کا یہ سلسلہ جاری رہے گا۔”