
امریکہ دنیا کا خوراک کی شکل میں سب سے زیادہ بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا ملک ہے اور اس دوران وہ اس بات کا خیال رکھتا ہے کہ بھوک کے شکار لوگوں کو مہیا کی جانے والی خوراک محفوظ اور غذائیت سے بھرپور ہو۔
امریکہ کے محکمہ زراعت کے ضوابط کے تحت یہ لازمی ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کا معائنہ کیا جائے اور یہ اشیاء عمدہ معیاروں پر پورا اترتی ہوں۔ مزید یہ بھی لازمی ہے کہ کھانے پینے کی اشیاء کو محفوظ رکھنے کے لیے پیک کیا جائے اور کسی مسئلے کی صورت میں بیرونی ممالک کو خوراک کی امداد پہنچانے کے ذمہ دار امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے [یو ایس ایڈ] کو اس مسئلے کی اطلاع دی جائے۔
رفینو پیریز یو ایس ایڈ کے انسانی امداد کے بیورو میں خوراک کی ٹکنالوجی کے مشیر اعلٰی ہیں۔ پیریز بتاتے ہیں کہ یو ایس ایڈ کے ساتھ مل کر محکمہ زراعت ہر سال خوراک کے محفوظ اور معیاری ہونے کے حوالے سے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کرنے والوں کا موقعے پر جا کر آڈٹ کرتا ہے۔ یو ایس ایڈ کی جانب سے فراہم کی جانے والی کھانے پینے کی تمام اشیاء میں ” Codex Alimentarius کی طرف سے تجویز کردہ بین الاقوامی طریقوں کے اُس کوڈز” کی پابندی کی جاتی ہے جو خوراک کے اُن بین الاقوامی معیاروں کا مجموعہ ہے جن پر عمل کرنا ضروری ہے۔
چونکہ امریکہ بیرونی ممالک سے بھی کھانے پینے کی اشیاء خریدتا ہے اس لیے وہ ایسے معاہدوں کا مسودہ تیار کرتا ہے جن کے تحت خوراک کے محفوظ ہونے کی تصدیق کا کیا جانا ضروری ہوتا ہے۔ (امریکی اجناس کی طرح اس طرح خریدی گئیں اشیاء میں بھی بین الاقوامی معیارات کی پاسداری کی جاتی ہے۔) یو ایس ایڈ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ “ہمارے شراکت داروں پر لازم ہے کہ وہ [اپنے ملکوں] کے اندر معیار کو یقینی بنانے کے لیے اِن اشیاء کا معائنہ کرائیں۔”
یو ایس ایڈ نے دنیا میں پانچ مقامات پر پہلے سے ہی خوراک ذخیرہ کر رکھی ہے تاکہ کسی بحران کی صورت میں لوگوں کی مدد کے لیے فوری طور پر خوراک مطلوبہ جگہ پہنچائی جا سکے۔
سب سے زیادہ ضرورت مند لوگوں کی مدد کرنا
2022 میں205 ملین سے زیادہ افراد کو شدید بھوک کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ برس کے مقابلے میں یہ تعاد چھ فیصد زیادہ ہے۔ یو ایس ایڈ نے 2022 میں اپنے انسانی امداد کے بیورو کے ذریعے 57 ممالک میں ہنگامی حالات سے دوچار 167 ملین سے زائد افراد کی مدد کی۔ یہ امداد اجناس اور کھانے پینے کی اشیاء کی شکل میں فراہم کی گئی۔
یو ایس ایڈ گندم، چاول، خشک مٹر، دال، چنے اور بناسپتی گھی سمیت مختلف قسم کی 25 اجناس فراہم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ یو ایس ایڈ ایسے تیار کھانے بھی فراہم کرتا ہے جو غذائی ضروریات کو بہترین طریقے سے پورا کرتے ہیں۔ یہ کھانے مقامی لوگوں کی کھانے پینے کی ترجیحات کے مطابق تیار کیا جاتے ہیں۔

امریکہ کی طرف سے خوراک کی شکل میں فراہم کی جانے والی امداد تقسیم کرنے کے لیے یو ایس ایڈ اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام [ڈبلیو ایف پی] سمیت، انسانی ہمدردی کے تحت کام کرنے والی تنظیموں کے ساتھ مل کر کام کرتا ہے۔ یاد رہے کہ خوراک کا عالمی پروگرام انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی دنیا کی سب سے بڑی تنظیم ہے۔ گزشتہ برس ڈبلیو ایف پی نے یو ایس ایڈ کی طرف سے فراہم کردہ امریکہ میں اگائی گئیں ایک ملین میٹرک ٹن سے زیادہ اجناس کو ٹرانسپورٹ کرنے اور تقسیم کرنے میں مدد کی۔
‘آگ بجھانے والے آلات اور ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والی سیڑھیاں’
پیریز بتاتے ہیں کہ یو ایس ایڈ خوراک کی خریداری سے لے کر خوراک کی تقسیم کے مقامات تک پھیلے ہوئے خوراک کے موثر رسدی سلسلوں کو یقینی بنانے میں مدد کرتا ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے اجناس فراہم کرنے والوں، ٹیکنالوجی فراہم کرنے والوں، پیکنگ کے ماہرین اور تحقیقی تنظیموں کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات کا حوالہ دیا، جس میں یو ایس ایڈ کے ایک سینیئر عہدیدار نے اعلٰی ترین معیارات کے ساتھ جڑے اِس ادارے کے عزم کے بارے میں ایک اہم بات کرتے ہوئے کہا کہ “کوئی بھی کھانا جو محفوظ نہیں وہ کھانا نہیں ہو سکتا۔”
ڈبلیو ایف پی کی ورجینیا سیبنروک اور ڈیور جینا ٹووِچ کہتے ہیں کہ جہاں تک خوراک کے عالمی پروگرام کا تعلق ہے یہ ادارہ بھی خوراک کے محفوظ ہونے/معیاری ہونے کے بارے میں ماہرین پر انحصار کرتا ہے جن کا مشن ضرورتمند افراد تک محفوظ خوراک پہنچانے کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
سیبنروک کہتی ہیں ہے کہ “ہم رسدی سلسلے کے دوران خوراک کی حفاظت سے متعلق خطرات کو کم کرنے پر مل کر کام کرتے ہیں۔” یو ایس ایڈ اور ڈبلیو ایف پی کے اہلکاروں کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں میں توجہ کا مرکز رسدی سلسلے کے “ابتدائی حصے” اور “حتمی حصے” ہوتے ہیں۔ ابتدائی حصے کا تعلق خوراک کی خصوصیات، خوراک کے معائنے، فراہم کنندگان کا آڈٹ اور اُن کی کارکردگیوں سے ہوتا ہے اور اس پر یو ایس ایڈ توجہ مرکوز کرتا ہے۔ جبکہ حتمی حصے کا تعلق خوراک کو ذخیرہ کرنے، تقسیم کرنے، خرابی کے ماخذ کا پتہ چلانے، خوراک کے موثر ہونے، اور حادثاتی صورت حال سے نمٹنے سے ہوتا ہے اور ڈبلیو ایچ او اس پر توجہ کا مرکز کرتا ہے۔
سیبنروک کہتی ہیں کہ “خرابی کے ماخذ کو تلاش کرنا خوراک کی سلامتی کے نظام کا اہم جزو ہے” کیونکہ یہ کارکنوں کو خوراک کے آلودہ ہونے جیسے واقعات سے نمٹنے میں مدد کرتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ “خرابی کے ماخذ کو تلاش کرنے کا [نظام] جتنا بہتر ہوگا ناموزوں خوراک کے کھائے جانے کے امکانات اتنے ہی کم ہوں گے۔”
یو ایس ایڈ اور ڈبلیو ایف پی خرابی کے ماخذوں کو تلاش کرنے کی جدید ترین ٹکنالوجیاں استعمال کر رہے ہیں۔ جینا ٹووِچ کہتے ہیں کہ “ان کی مثال عمارتوں میں آگ بجھانے والے آلات اور ہنگامی حالات میں استعمال ہونے والی سیڑھیوں جیسی ہے۔”

جینا ٹووِچ کہتے ہیں کیونکہ خوراک کا عالمی پروگرام اجناس کو اُن مشکل علاقوں میں پہنچاتا ہے جہاں ممکن ہے پکی سڑکیں نہ ہوں۔ لہذا “ہم ایسے طریقہائے کار اپناتے ہیں جو کہ پرچون میں [فراہم کیے جانے والے] اجناس کے ماحول کے مقابلے میں زیادہ سخت ہوتے ہیں۔” اجناس پیدا کرنے والوں کے لیے لازم ہے کہ وہ مناسب طریقہائے کار اپنائیں اور غذائیت کے مواد کے تقاضوں کو پورا کریں۔ مثال کے طور پر ڈبلیو ایف پی جب اناج کو ٹرانسپورٹ کرتا ہے تو اس دوران خراب حالات میں اناج کو نقصان سے بچانے یا مرطوب آب و ہوا میں پھپھوندی لگنے سے بچانے کے لیے مضبوط قسم کی پیکنگ کرنا لازمی ہوتا ہے۔ جیناٹووِچ بتاتے ہیں کہ “ہم خوراک تقسیم کرنے پہلے اسے چیک کرتے ہیں۔” حقیقت میں دنیا بھر میں انسپکٹر اُن مقامات پر خوراک کی جانچ پڑتال کرتے ہیں جو خوراک کی اِن کھیپوں کی منزل مقصود ہوتے ہیں۔
خوراک کے عالمی پروگرام کے ہاں خوراک کے خراب ہونے کے واقعات کا پتہ چلانے اور اس کی رپورٹنگ کا ایک ڈیجیٹل نظام موجود ہے جس کے تحت یو ایس ایڈ کے ساتھ معلومات کا تبادلہ کیا جاتا ہے۔ جب تفتیش کار کسی واقعے کی بنیادی وجوہات کا تعین کر لیتے ہیں تو دونوں ادارے مسائل کو دوبارہ پیدا ہونے سے روکنے کے لیے ضروری اصلاحی اقدامات اٹھاتے ہیں۔ سیبنروک کہتی ہیں کہ “یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ ہمارے پاس مسلسل بہتری کا کوئی نہ کوئی نظام موجود ہو۔”
امریکی خوراک سے مستفید ہونے والے بہت سے لوگوں کی طرح جنوبی سوڈان کی یانی بیئل کا کہنا ہے کہ خوراک کے عالمی پروگرام کی امریکہ سے بھیجی گئی خوراک کا نتیجہ یہ ہے کہ اُن کے بچے روزانہ جب سکول سے گھر آتے ہیں تو اُن کے لیے گھر میں کھانا موجود ہوتا ہے۔ کھانے کی یہ دستیابی انہیں ایک بہتر اور روشن مستقبل کی بنیاد مہیا کرتی ہے۔