دنیا میں بھوک کے شکار لوگوں کے لیے ایک پروگرام

امریکیوں اور اُن کے دوستوں کے یوم تشکر منانے کے لیے اکٹھے ہونے سے تقریباً ایک ہفتہ قبل ٹرکوں کا ایک قافلہ ایتھوپیا کے جنگ زدہ علاقے ٹِگرے جا کر رکا اور انسان دوست کارکنوں نے سینکڑوں ٹن خوراک ٹرکوں سے اتارنا شروع کر دی۔ گو کہ لڑائی اور عدم استحکام نے اس کام کو خطرناک بنا دیا ہے تاہم گندم اور مٹروں سے بھری بوریوں اور بناسپتی تیل کے ڈبوں کو علیحدہ کرنے کے بعد اس علاقے میں بھوک کا شکار ہونے والے لوگوں تک پہنچا دیا گیا۔

اس خوراک کا بندوبست دنیا کی سب سے بڑی انسان دوست تنظیم یعنی اقوام متحدہ کے خوراک کے عالمی پروگرام [ڈبلیو ایف پی] کی جانب سے کیا گیا تھا۔ اندازے کے مطابق خوراک کی اس فراہمی سے 67,000 افراد کو مدد ملے گی۔

 ٹرک پر لدی بوریوں پر بیٹھا ایک آدمی (WFP)
ایتھوپیا کے شہر گودے کے قریب ایک گودام کے باہر اناج سے بھرے قطار میں کھڑے ٹرک اناج کے اتارے جانے کا انتظار کر رہے ہیں۔ (WFP)

جنوبی کیرولائنا سے تعلق رکھنے والے امریکی اور 2017 سے ڈبلیو ایف پی میں ایگزیکٹو ڈائریکٹر کے طور پر کام کرنے والے ڈیوڈ بیسلی کے مطابق اس میں کوئی شک نہیں کہ بھوک کے خلاف یہ ایک اہم کامیابی ہے تاہم محض ایک کامیابی سے مطمئن ہوکر بیٹھ جانے پر اُن کی طبیعت نہیں مانتی کیونکہ وہ سوچتے ہیں کہ نجانے کتنے اور لوگوں کو اب بھی مزید امداد کی ضرورت ہو گی۔

2022 کے اواخر تک ڈبلیو ایف پی 80 ممالک میں 153 ملین افراد کو خوراک، ادویات اور مدد فراہم کرنے کے اپنے ہدف کی طرف کامیابی سے گامزن ہے۔ اِن میں سے زیادہ تر افراد کو جنگ اور قحط کا سامنا ہے۔ ڈبلیو ایف پی کی 60 سالہ تاریخ میں لوگوں کی یہ تعداد سب سے زیادہ ہے۔

بیسلی نے روم میں ڈبلیو ایف پی کے ہیڈکوارٹر سے شیئر امریکہ کو فون پر انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ “جب میں نے یہ عہدہ سنبھالا تو میرا مقصد یہ تھا کہ ‘میں ایسا کیا کروں جس سے خوراک کے عالمی پروگرام کی ضرورت باقی نہ رہے؟’ [مگر] ہمارے لیے ابھی بہت سا کام کرنا باقی ہے۔”

 ڈیوڈ بیسلی ایک سیاہ فام بچے سے بات کرتے ہوئے مسکرا رہے ہیں (WFP)
خوراک کے عالمی پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی یوگنڈا میں پناہ گزینوں کی ایمویپی بستی میں ایک بچے سے بات کر رہے ہیں۔ (WFP)

بیسلی کی نگرانی میں تصادموں، موسمیاتی تبدیلیوں اور خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے کرہ ارض پر بسنے والی کمزور ترین کمیونٹیوں کو پیچیدہ مشکلات سے دوچار کر دیا ہے جس کی وجہ سے ڈبلیو ایف پی کے پروگراموں کے اخراجات 10 ارب ڈالر سالانہ ہوگئے ہیں اور عملے کے ارکان کی تعداد 22,000 سے زائد ہوگئی ہے۔ امدادی کاروائیاں جاری رکھنے کے لیے عطیات دینے والے ممالک فنڈ مہیا کرتے ہیں۔ امریکی 2022 کے آخر تک  ڈبلیو ایف پی کو رواں سال کے لیے 5.4 ارب ڈالر فراہم کر چکے ہیں۔ گزشتہ دہائی کے دوران امریکیوں نے تقریباً 25.1 ارب ڈالر کے عطیات دیئے۔

 22 نومبر تک امریکہ، چین، جاپان، جرمنی اور برطانیہ کی طرف سے ڈبلیو ایف پی کو 2022 کے دوران دیئے جانے والے عطیات کا تصویری خاکہ
(State Dept./Helen Efrem)

ہو سکتا ہے بعض لوگ حیران ہوں کہ امریکہ ایسے میں بیرونی دنیا کو اتنے زیادہ پیسے بھجوانا کیوں جاری رکھے ہوئے ہے جب کہ ملک کے اندر اس کی اپنی بہت سی ضروریات موجود ہیں۔

بیسلی کا کہنا ہے کہ “اس کا ایک سادہ سا جواب ہے۔ آپ کو یہ کام اپنی نیک دلی سے کرنا چاہیے۔ تاہم اگر آپ ایسا کرنے نہیں جا رہے تو بہتر ہے کہ آپ اسے اپنی قومی سلامتی کے مفاد اور اپنے مالی مفاد کے لیے کریں کیونکہ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ کو اس کی قیمت ادا کرنا پڑے گی۔ آپ کو اندرونی طور پر اس کی 1,000 گنا زیادہ قیمت چکانی پڑے گی۔”

وہ کہتے ہیں کہ مثال کے طور پر جرمنی نے پانچ سال کے عرصے میں اپنا ملک چھوڑ کر یورپی ممالک میں آنے والے شامی پناہ گزینوں کی مدد کے لیے 125 ارب ڈالر یا یومیہ تقریباً 70 ڈالر خرچ کیے۔ ڈبلیو ایف پی ایسے ہی کسی ایک شخص کی اُس کے اپنے آبائی ملک میں یومیہ 50 سینٹ میں مدد کر سکتا ہے۔ وہ کہتے ہیں اس سے بھی بڑھکر اہم یہ ہے کہ زیادہ تر پناہ گزین اس بات کو ترجیح دیں گے کہ اگر انہیں اپنے وطن میں محفوظ اور پائیدار زندگی گزارنے کے لیے ضروری وسائل اور مدد فراہم کر دی جائے تو وہ کبھی بھی پناہ گزین نہیں بنیں گے۔ “لہذا میں ٹیکس دہندگان سے پوچھتا ہوں کہ آپ کون سے [کام] کے لیے فنڈ دیں گے؟”

65 سالہ بیسلی نے اپنی زندگی عوامی خدمت میں گزاری ہے۔ بیسلی 1978 میں 21 سال کی عمر میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے پہلی بار جنوبی کیرولائنا کے ایوان نمائندگان کے رکن منتخب ہوئے۔ ٹھیک 100 سال پہلے بیسلی کے پردادا اسی نشست پر منتخب ہوئے تھے۔ ایوان نمائندگان کے رکن کی حیثیت سے اپنی آخری مدت کے دوران بیسلی نے اپنی پارٹی بدلی اور ری پبلکن پارٹی میں چلے گئے اور جنوبی کیرولائنا کے گورنر بن گئے۔ اُس وقت اُن کی عمر 37 برس تھی۔

2017 میں بیسلی کو اُس وقت عالمی پروگرام کی قیادت کرنے کا کہا گیا جب اقوام متحدہ میں تب کی امریکی سفیر نکی ہیلی نے دیگر لوگوں کے ساتھ مل کر بیسلی کا نام تجویز کیا۔ بیسلی اپنے کام کی وجہ سے فوری طور پر توجہ کا مرکز بن گئے۔ 2020 میں انہوں نے ڈبلیو ایف پی کی جانب سے امن کا نوبیل انعام قبول کیا۔ ڈبلیو ایف پی کو یہ انعام غذائی سلامتی اور انسانی ہمدردی کے کاموں کے ذریعے دنیا کو مستحکم بنانے کی کوششوں کے اعتراف کے طور پر دیا گیا۔ یوکرین کے بحران کے دوران بیسلی کی پانچ سالہ مدت میں توسیع کی گئی اور اب اُن کی میعاد اپریل 2023 میں ختم ہوگی۔

آج کے حقائق کا سامنا کرنا

یوکرین کے خلاف روس کی جنگ نے اِس کام کو پیچیدہ بنا دیا ہے۔ مثال کے طور پر ٹگرے کے علاقے میں پہنچنے والے زیادہ تر اناج کا امکان ہے کہ یہ یوکرین سے آیا ہو۔ یوکرین “اناج کا گھر” ہے اور ڈبلیو ایف پی کی جانب سے پوری دنیا میں تقسیم کیے جانے والے اناج کی تقریباً 50 فیصد سپلائی یوکرین سے آتی ہے۔ اس موسم گرما کے اوائل میں روس نے بحیرہ اسود کی بندرگاہ اوڈیسا سے بحری جہازوں کو روانہ ہونے سے روک دیا جس کے نتیجے میں بھوک کے شکار دنیا بھر کے لوگ شدید پریشانی میں مبتلا ہوگئے۔ چنانچہ بیسلی فضائی راستے سے فوری طور پر اوڈیسا پہنچے اور روسی صدر ولاڈیمیر پیوٹن پر بحری جہازوں کو باہر جانے کی اجازت دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کی مہم میں شامل ہوگئے۔ اقوام متحدہ نے بالآخر روس کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے‘بحراسود کا اناج کا منصوبہ’ کہا جاتا ہے۔ اس کے فورا بعد “آئیکیریا اینجل” نامی بحری جہاز  جبوتی کے لیے خوراک لے کر روانہ ہوا۔ جبوتی میں جہاز سے اناج اتار کر ایتھوپیا بھجوا دیا گیا۔ ایک اور بحری جہاز، “بی سی وینیسا” اوڈیسا سے اناج لے کر افغانستان گیا۔ یہ جہاز ترکی رکا جہاں گندم کو پیس کر آٹا تیار کیا گیا۔

اناج کی کھیپیں محض بھوک کے شکار لوگوں کے لیے ہی اچھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ سب کے حق میں اچھی ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اناج کی فراہمی سے دنیا میں اجناس کی منڈیوں میں استحکام لانے میں مدد ملتی ہے جس سے خوراک سب کے لیے سستی ہو جاتی ہے۔

 ایک عورت اردگرد کھڑے مویشیوں کے درمیان گائے کا دودھ دو رہی ہے (WFP)
جنوبی سوڈان کے مویشیوں کے ڈِنگ ڈِنگ نامی باڑے میں ویرونیکا کوآنگ ایک گائے کا دودھ دو رہی ہیں۔ خوراک کا عالمی پروگرام روزگار کے ایسے مواقع پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے جس سے کمیونٹیوں کے لوگوں کو بدلتے موسموں سے موافقت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے اور جو امن میں معاونت کرتے ہیں۔ (WFP)

بیسلی کو علم ہے کہ محض خیرات دنیے سے  بھوک کا مسئلہ کبھی بھی حل نہیں کیا جا سکتا۔ اسی وجہ سے وہ جس ادارے کی قیادت کر رہے ہیں وہ کمیونٹیوں اور کسانوں کو موسمیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ کرنے کی خاطر اُن میں مضبوطی پیدا کرنے کا کام کر رہے ہیں۔ ماہرین شہروں میں صاف پانی تک رسائی میں آسانیاں پیدا کر رہے ہیں اور کسانوں کو ایسی تکنیکیں سکھا رہے ہیں جو کھیتوں کو پھلنے پھولنے میں مدد گار ثابت ہوسکیں۔ سماجی رسائی بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ “اگر آپ دنیا بھر کی خواتین پر مثبت طور پر اثر انداز ہونا چاہتے ہیں تو اس ضمن میں عورتوں پر جتنا مثبت اثر خوراک کا عالمی پروگرام ڈالتا ہے اس سے زیادہ مثبت اثردنیا کا کوئی کام  نہیں ڈالتا۔۔”

موسم گرما کے دوران بیسلی نے ڈبلیو ایف پی کی طرف سے اٹھائے جانے والے اقدامات کے نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ڈبلیو ایف پی کی جانب سے کمیونٹی کے لیے پانی کا کنواں کھودوانے اور آبپاشی کا نظام نصب کرنے میں مدد کرنے کے دو سال بعد جب وہ افریقہ واپس گئے تو انہوں نے دیکھا کہ بنجر صحرائی زمینیں ایسے سرسبز و شاداب کھیتوں میں تبدیل ہو چکی تھیں جو سبزیوں سے بھرے ہوئے تھے۔

بیسلی کہتے ہیں کہ “میں اس ایک عورت، بیبا کو کبھی نہیں بھولوں گا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ اس کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی ہے اور اُس نے کہا ‘سنیے اب ہم آپ پر انحصار نہیں کرتے۔'” اِس بستی کے لوگ اب اپنا پیٹ پال سکتے ہیں اور کھلی منڈی میں فالتو سبزیاں بیچنے کے لیے ان کے پاس کافی زیادہ مقدار میں سبزیاں ہوتی ہیں۔ اس سے کمیونٹی کے لوگ اپنے بچوں کے لیے دوائیں اور کپڑے خریدنے کے قابل ہو گئے ہیں۔

بیسلی کہتے ہیں کہ “اوہ میرے خدایا۔ جب آپ یہ سنتے ہیں تو آپ کی آنکھوں میں [خوشی] کے آنسو اُمڈ آتے ہیں اور آپ بہت خوش ہوتے ہیں۔”

فری لانس لکھاری، ٹِم نیویل نے یہ مضمون لکھا۔