دنیا میں شیروں کی تعداد میں اضافہ

دنیا میں جنگلی شیروں کی تعداد کے بارے میں اچھی خبر آئی ہے۔ نئے اندازوں کے مطابق دنیا میں جنگلی شیروں کی تعداد میں تقریباً 40% اضافہ ہوا ہے اور اب اُن کی تعداد بڑھکر 4,500 ہو گئی ہے۔

شیروں کی تعداد میں یہ اضافہ کئی دہائیوں کے بعد دیکھنے میں آیا ہے۔ یہ پیشرفت اِس نوع کے جانوروں کی ممکنہ واپسی کا پتہ دیتی ہے۔

شیروں کی تعداد میں اضافے کی ایک بڑی وجہ امریکہ سمیت دنیا کے ممالک کے مابین کی جانے والی ان کے تحفظ کی کوششیں ہیں۔

جنگلی شیر معدومیت کے سنگین خطرات سے دو چار ہیں۔ گزشتہ ایک سو سال میں جنگلی شیروں کی تعداد تیزی سے کم ہوئی ہے۔ بیسویں صدی کے آغاز پر دنیا میں ایک لاکھ شیر تھے جبکہ 2010 میں یہ تعداد کم ہو کر تقریباً 3,200 رہ گئی۔

2010 میں شیروں کے مسکنوں والے ممالک نے “گلوبل ٹائیگر ریکوری پلان” کے نام سے شیروں کی بحالی کے ایک بڑے عالم منصوبے پر اتفاق کیا تا کہ جنگلی شیروں کی تعداد میں مزید کمی کو روکا جا سکے اور 2022 سے پہلے شیروں کی تعداد دوگنی کی جا سکے۔ یاد رہے کہ سال 2022 “شیروں کا سال” ہے۔

امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے اور امریکہ کی مچھلیوں اور جنگلی حیات کی “یو ایس فش اینڈ وائلڈ لائف سروس” نے امریکی سائنس دانوں اور بھارت، انڈونیشیا اور نیپال جیسے کئی ایک ممالک اور اِن میں رہنے والے مقامی لوگوں کی ایک بڑی تعداد کے ساتھ مل کر معدومیت کے شکار اس جانور کو بچانے کا کام کیا۔

نئے مطالعاتی جائزوں اور پروگراموں سے حاصل ہونے والی  راہنمائی

دنیا میں شیروں کی مجموعی تعداد کا 75 فیصد بھارت میں پایا جاتا ہے اور شیروں کی تعداد میں سب سے زیادہ کمی بھی یہیں دیکھنے میں آئی ہے۔

شیروں اور مقامی بستیوں کے لوگوں کو بقائے باہمی کے اصول کے تحت رہنے میں مدد کرنے کے لیے کولمبیا یونیورسٹی اور بھارت کے جنگلی حیات کے انسٹی ٹیوٹ کے محققین نے جنگلی حیات کی اُن پانچ راہداریوں کا تجزیہ کیا جن کے ذریعے شیر ایک محفوظ علاقے سے دوسرے محفوظ علاقے تک آتے جاتے ہیں۔ اِن محققین کا حتمی مقصد انسانوں اور شیروں کے تصادموں کو کم کرنے کے لیے جنگلی حیات کی اِن راہداریوں کو قائم رکھنے کو یقینی بنانا ہے جنہیں شیر محفوظ علاقوں تک آمد و رفت کے لیے استعمال کرتے ہیں۔

 پانی میں کھیلتے ہوئے بنگال کی ایک شیرنی اور دو بچے (© Arindam Bhattacharya/Alamy)
مدھیہ پردیش، بھارت میں 9 مئی 2015 کو بندھاو گڑھ نیشنل پارک میں بنگال کی ایک شیرنی اپنے بچوں کے ساتھ پانی میں کھیل رہی ہے۔ (© Arindam Bhattacharya/Alamy)

اس مطالعاتی جائزے میں شامل کولمبیا یونیورسٹی کے گریجویٹ طالب علم جے شون نے کولمبیا کلائمیٹ سکول کو بتایا کہ “ہمیں امید ہے کہ یہ [مطالعہ] اس بارے میں واضح معلومات فراہم کرے گا کہ موجودہ سائنس کہاں متفق ہے، اور [سائنس] شیروں اور اُن دیگر انواع کے تحفظ کے لیے موجودہ کوششوں کو تقویت پہنچا سکتی ہے جو وسطی ہندوستان میں اپنے مشترکہ مسکن میں رہتی ہیں۔”

انڈونیشیا کے لیوزر نامی ماحولیاتی نظام کے تحت یو ایس ایڈ نے جنگلی حیات کو تحفظ فراہم کرنے والے “وائلڈ لائف ریسپانس یونٹس” [ڈبلیو آر یو] کی انڈونیشیا کی وزارت ماحولیات اور جنگلات کے حکام کے ساتھ مل کر انسانی اور جنگلی حیات کے تصادموں کو کم کرنے میں مدد کی۔ ڈبلیو آر یو اور وزارتی حکام نے اِس ماڈل کو 221 کمیونٹیوں میں تک پھیلایا اور کمیونٹیوں کے  1,200 افراد کو تربیت دی۔

جنگلی حیات کی سمگلنگ کے خاتمے یعنی “انڈ وائلڈ لائف” کے 2021 کے تزویراتی جائزے کے مطابق 2015 کے بعد سے مشترکہ مسکنوں میں جنگلی حیات کے تصادموں کی وجہ سے کسی ایک شیر کو بھی ہلاک نہیں کیا گیا۔

ڈیل میکیل “وائلڈ لائف کنزرویشن سوسائٹی” کے شیروں کے پروگرام کے رابطہ کار ہیں۔ میکیل نے آئی یو سی این کی تازہ ترین رپورٹ کے بارے میں روزنامہ  واشنگٹن پوسٹ کو بتایا کہ “یہ ایک نازک کامیابی ہے۔ شیروں کی آبادی پر اب بھی بہت سے دباؤ ہیں، اور وہ بعض علاقوں سے غائب ہوتے جا رہے ہیں۔”