
اگر آپ کی حکومت نے آپ کی ثقافت پر پابندی لگا دے تو یہ کیسا ہوگا؟ یا آپ کے بچے کو آپ سے چھین کر اُس کی پرورش کوئی دوسری زبان بولتے ہوئے کرے تو آپ کیا محسوس کریں گے؟ یا آپ کی بیوی یا بیٹی کی اُس کی رضامندی کے بغیر نس بندی کر دی جائے تو آپ کیا کہیں گے؟ کیا آپ یہ نہیں چاہیں گے کہ دنیا کو اس کی خبر ہو؟
21 اکتوبر کوامریکہ، فرانس، لکسمبرگ اور بیلجیئم نے 39 دیگر ممالک کے ہمراہ عوامی جمہوریہ چین (پی آر سی) کے رہنماؤں سے مطالبہ کیا کہ وہ آزاد مبصرین کو چین کے شنجیانگ کے علاقے تک “فوری، بامعنی اور بلا روک ٹوک رسائی” کی اجازت دیں۔
اقوام متحدہ کے ایک مشترکہ اعلامیے میں اِن ممالک نے پی آر سی کی طرف سے ویغوروں، جو زیادہ تر مسلمان ہیں، اور دیگر نسلی اور مذہبی اقلیتی گروہوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے خلاف “بڑے پیمانے پر اور منظم انداز سے کی جانے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں” کی روزافروں رپورٹوں کا حوالہ دیا۔ اسی طرح انہوں نے تشدد، بچوں کی علیحدگی، جبری نس بندیوں، جنسی اور جنس پر مبنی تشدد، اور “مذہب یا عقیدے کی آزادی اور نقل و حرکت، میل جول اور اظہار رائے کی آزادی پر شدید پابندیوں” سمیت دیگر زیادتیوں کا حوالہ بھی دیا۔
اقوام متحدہ میں فرانسیسی سفیر، نکولس دو رویئیر کی طرف سے پڑھے گئے اعلامیے میں کہا گیا ہے، “ہم چین پر زور دیتے ہیں کہ وہ قانون کی حکمرانی کے مکمل احترام کو یقینی بنائے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے حوالے سے قومی اور بین الاقوامی قانون کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔”
The U.S. joins @franceonu and 41 other Member States to voice our concern about the situation in Xinjiang and credible reports of widespread human rights violations against Uyghurs. https://t.co/WMPeE2CLCf
— U.S. Mission to the UN (@USUN) October 21, 2021
2017 کے بعد سے پی آر سی شنجیانگ میں نسلی اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے 10 لاکھ سے زائد افراد کو حراست میں لے چکا ہے۔ مارچ میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کی کونسل نے چین میں ویغوروں کی حراست اور جبری مشقت کے بارے میں گہری تشویش کا اظہار کیا۔
انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی رپورٹوں کے پیش نظر 43 ممالک نے “[دنیا کے] تمام ممالک سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ہاں پناہ کے لیے آنے والوں کو پناہ دینے کے اصول کا احترام کریں” یا ویغوروں یا دیگر اقلیتی گروپوں سے تعلق رکھنے والے افراد کو زبردستی پی آر سی واپس نہ بھیجیں جہاں انہیں ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
بیرونی مملک میں تعلیم حاصل کرنے والے کچھ ویغور پہلے ہی یورپ میں رہنے کا انتخاب کر چکے ہیں کیونکہ وہ شنجیانگ واپس جا کر کوئی خطرہ مول لینا نہیں چاہتے۔ سائنسی ترقی اور ٹیکنالوجی کی ترقی کو ظلم و جبر روا رکھنے کے اوزاروں کے طور پر استعمال کیے جانے کے بارے میں روز بروز بڑھتے ہوئے خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے بلجیئم کے ایک پروفیسر نے محققین پر زور دیا ہے کہ وہ ویغوروں سے حاصل کردہ ڈیٹا کو سائنسی مطالعات میں ویغوروں کی رضامندی کے بغیر استعمال نہ کریں۔
حیاتیاتی ڈیٹا اکٹھا کرنا شنجیانگ میں پی آر سی کی وسیع پیمانے پر کی جانے والی اجتماعی نگرانی کا ایک حصہ ہے۔ یہ ایک ایسا نظام ہے جس میں چہرے کی شناخت کرنے والی ٹیکنالوجی سے لیس کیمرے بھی شامل ہیں جن کی وجہ سے یہ خطہ ایک کھلے قید خانے میں تبدیل ہو گیا ہے۔
اس اعلامیے میں یہ ممالک شامل ہیں: البانیہ، آسٹریلیا، آسٹریا، بیلجیئم، بلغاریہ، کینیڈا، کروشیا، جمہوریہ چیک، ڈنمارک، ایستونیا، ایسواتینی، فن لینڈ، فرانس، جرمنی، ہونڈوراس، آئس لینڈ، آئرلینڈ، اٹلی، جاپان، لاتھویا، لائبیریا۔ لیخٹن شٹائن، لتھوینیا، لکسمبرگ، مارشل جزائر، موناکو، مونٹی نیگرو، نارو، نیدرلینڈز، نیوزی لینڈ، شمالی مقدونیہ، ناروے، پلاؤ، پولینڈ، پرتگال، سان مارینو، سلوواکیہ، سلووینیا، سپین، سویڈن، ترکی، برطانیہ اور امریکہ۔