دنیا بھر میں مذہبی آزادی کے تحفظ کے ساتھ امریکی عزم غیرمتزلزل ہے۔

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا ہے، “دنیا میں کوئی اور ایسا ملک نہیں ہے جو مذہبی آزدی کا اتنا زیادہ خیال رکھتا ہو۔”

پومپیو اور بین الاقوامی مذہبی آزادی کے عمومی سفیر سیم براؤن بیک نے 10 جون کو ایک اخباری کانفرنس میں بین الاقوامی مذہبی آزادی پر سال 2019 کی رپورٹ متعارف کرائی۔ یہ محکمہ خارجہ کی ہر سال جاری کی جانے والی رپورٹ ہے جس میں دنیا بھر کے ممالک میں مذہبی آزادی کی صورت حال کا جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔

ایک آدمی اور مذہبی اشیاء اور بیان کی تصویر جس پر یہ تحریر چسپاں ہے "دنیا کے بعض حصوں میں ایک بہت بڑی تاریکی چھائی ہوئی ہے جہاں مذہبی لوگوں کے ساتھ ظلم و زیادتیاں کی جاتی ہیں یا اُن کے عبادت کے حقوق سے انکار کیا جاتا ہے۔" (© Vincent Yu/AP Images)
(© Vincent Yu/AP Images)

دنیا بھر میں مذہبی آزادی پر اظہار خیال کرتے ہوئے پومپیو نے نائجیریا پر روشنی ڈالی جہاں “داعش اور بوکو حرام مسلمانوں اور عیسائیوں پر برابر حملے کر رہے ہیں۔” اسی طرح انہوں نے چین پر بھی روشنی ڈالی جہاں تمام مذاہب پر چینی کمیونسٹ پارٹی کا سرکاری سرپرستی میں کیا جانے والا ظلم و جبر دن بدن بڑھتا چلا جا رہا ہے۔

پومپیو نے کہا، “چینی کمیونسٹ پارٹی اب مذہبی تنظیموں کو سی سی پی کی قیادت کی فرمانبرداری کرنے اور کمیونسٹ نظریے کو اپنی مذہبی تعلیمات اور عبادات میں شامل کرنے کا حکم دے رہی ہے۔”

پومپیو نے ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے مذہبی آزادی کے فروغ اور تحفظ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کی تفصیل بیان کی جن میں دیگر کے علاوہ ذیل کے اقدامات بھی شامل ہیں:-

براؤن بیک نے کہا کہ امریکہ “تمام مذاہب، گروہوں، یا کوئی بھی عقیدہ نہ رکھنے والے لوگوں کی مذہبی آزادی کا تحفظ کرنا اور فروغ دینا” جاری رکھے ہوئے ہے۔

براؤن بیک نے رجائیت پسندی کی کچھ وجوہات پر بھی روشنی ڈالی۔ انہوں نے بتایا کہ بعض حکومتوں کی طرف سے اپنے ہاں اصلاحات کی گئی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس کے نتیجے میں”سوڈان اور ازبکستان کو خاص تشویش کے حامل ممالک کی فہرست سے خارج کر دیا گیا ہے۔”

براؤن بیک نے کہا، “مذہبی آزادی کا فروغ اتنا اہم ہے کہ اسے پوری طرح بیان نہیں کیا جا سکتا۔ ہم مستقبل میں بھی ہر ایک کے لیے مذہبی آزادی کو فروغ دینے کے اپنے عزم کو آگے بڑہاتے رہیں گے اور یہی وہ کچھ ہے جو ہم کر چکے ہیں اور یہی وہ کچھ ہے جو ہم آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔”