دنیا کو افریقہ میں بھوک کم کرنے کے لیے متحرک کرنا

باہر کھلی جگہ پر لوگ کھڑے اور بیٹھے ہوئے ہیں (© Desmond Tiro/AP Images)
کینیا میں کچوڈا کے مقام پر لوگ 23 جولائی کو امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کی طرف سے خوراک تقسیم کیے جانے کے منتظر ہیں۔ (© Desmond Tiro/AP Images)

اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس- گرین فیلڈ نے 5 اگست کو کہا کہ توانائی کی بڑھتی ہوئی قیمتیں، موسمیاتی تبدیلیاں، کووڈ-19 اور عالمی تنازعات خوراک کے بحران کو، بالخصوص افریقہ میں ہوا دے رہے ہیں۔

اسی لیے جون میں صدر بائیڈن نے  2.76 ارب ڈالر کی امریکی فنڈنگ کا اعلان کیا۔ اس کا مقصد دنیا کی کمزور ترین آبادیوں کو تحفظ فراہم کرنا اور خوراک کے عدم تحفظ اور غذائیت کی کمی کے اثرات میں کمی لانا ہے۔

تھامس- گرین فیلڈ نے گھانا کے دارالحکومت اور گھانا کے سب سے بڑے شہر عکرہ میں کہا کہ “اب ‘فیڈ دا فیوچر’ [یعنی خوراک کے حوالے سے مستقبل کو محفوظ بنانے]، گھانا اور دیگر افریقی ممالک کو اناج گھروں میں تبدیل کرنے کا وقت آن پہنچا ہے۔”

انہوں نے کہا کہ افریقہ میں ہر پانچ میں سے ایک فرد غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ صرف قرنِ افریقہ کے ممالک میں 20 ملین تک افراد کے بھوک کا شکار ہونے کا خطرہ ہے۔

 اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس- گرین فیلڈ نامہ نگاروں سے باتیں کر رہی ہیں۔ (© Misper Apawu/AP Images)
اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر لنڈا تھامس- گرین فیلڈ 5 اگست کو عکرہ میں گھانا یونیورسٹی میں امن اور خوراک کے تحفظ کے موضوع پر اپنے کلیدی خطاب کے بعد صحافیوں سے باتیں کر رہی ہیں۔ (© Misper Apawu/AP Images)

انہوں نے کہا گو کہ “یہ کام غیرمعمولی اہمیت کا حامل ہے مگر ہمارا کام محض بھوک کے شکار لوگوں کو کھانا فراہم ہی نہیں۔ ہمیں سب سے پہلے یہ دیکھنا ہوگا کہ کیا چیز ہے جو اِس بھوک کا سبب بن رہی ہے [اور] خوراک کی عدم سلامتی میں کون سی چیز اضافہ کر رہی ہے۔”

تین عوامل: موسم، کووڈ-19 اور تصادم

موسمیاتی تبدیلی: انہوں نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے افریقہ میں گزشتہ 30 سالوں کے دوران زرعی پیداوار میں ایک تہائی کمی واقع ہوئی ہے۔ پانی کے بڑھتے ہوئے درجہ حرارتوں کی وجہ سے مچھلیوں کی پیداوار میں کمی آئی ہے۔ یاد رہے کہ گھانا میں مچھلیاں آمدنی اور غذائیت کا ایک بڑا ذریعہ ہیں۔ صومالیہ میں 2.3 ملین لوگ قحط کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ 2022 کے اوائل سے اب تک صومالیہ میں خشک سالی کی وجہ سے ستر ہزار اونٹ، بکریاں، بھیڑیں اور مویشی مر چکے ہیں۔

کووڈ-19: کووڈ-19 عالمی وباء سے پہلے 100 ملین افراد کو خوراک کے حوالے سے عدم تحفظ کا سامنا تھا۔ تھامس- گرین فیلڈ نے کہا کہ تین سال بعد ایسے افراد کی تعداد 190 ملین سے تجاوز کرگئی ہے۔ کووڈ نے لیبر مارکیٹوں کو درہم برہم کر دیا جن پر کسانوں کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی طرح کووڈ نے ترسیلی سلسلوں کو الٹ پلٹ دیا جس سے مارکیٹوں سے خوراک حاصل کرنا مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا گیا۔

تصادم: ڈیموکریٹک ری پبلک آف کانگو اور وسطی افریقی جمہوریہ میں تشدد کی وجہ سے لاکھوں لوگ بے گھر ہونے پر مجبور ہوئے۔ روس کا یوکرین پر مکمل حملہ اور اس کی بندرگاہوں کی ناکہ بندی بھی خوراک کے بحران کی وجوہات بنیں۔ روس اور یوکرین افریقہ کی گندم کی 40 فیصد ضروریات پوری کرتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق یہ دونوں ممالک اریٹیریا، صومالیہ اور مڈغاسکر کو اس سے بھی زیادہ فیصد شرحوں سے گندم فراہم کرتے ہیں۔

 تین روٹیاں اٹھائے ہوئے ایک نانبائی (© Luke Dray/Getty Images)
امریکی حکومت افریقہ میں زرعی تجارت میں مدد کرتی ہے۔ اس میں یوگنڈا میں آٹے کی مِلیں بھی شامل ہیں۔ اوپر کمپالا میں 14 جون کو ایک نانبائی روٹیاں بنا رہا ہے۔ (© Luke Dray/Getty Images)

تھامس- گرین فیلڈ نے کہا کہ غذائی تحفظ کا بحران، گھانا اور دیگر افریقی ممالک کو اناج گھر بننے کے لیے درکار وسائل، بنیادی ڈھانچے اور رابطوں کو فوری طور پر متحرک کرنے کی بنیاد بن سکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ امریکی حکومت افریقہ میں زرعی کاروبار کی مدد کرتی رہے گی۔ حال ہی میں امریکہ نےگھانا کے 638,000  سے زائد چھوٹے زمینداروں کی قیمتوں میں اضافوں سے ہم آہنگ ہونے میں مدد کی۔ اس سلسلے میں اِن زمینداروں کی کھاد کے مقامی وسائل کے استعمال میں مدد کی گئی۔

اس سے ایک دن قبل تھامس-گرین فیلڈ نے یوگنڈا میں امریکی امداد سے چلنے والی آٹے کی ایک مِل کا دورہ کیا۔ انہوں نے یوگنڈا کو کھاد، اناج اور دیگر فصلوں میں سرمایہ کاری بڑھانے میں مدد کے لیے 20 ملین ڈالر کی اضافی رقم کا اعلان کیا۔ یوگنڈا میں پناہ گزینوں کے لیے خوراک فراہم کرنے کی خاطر امریکہ بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام  کر رہا ہے۔

تھامس-گرین فیلڈ نے کہا کہ “ہم ایک ایسا افریقہ دیکھنا چاہتے ہیں جو اپنے تئیں خوراک کی ایسی فراہمیوں کے ساتھ خود کفیل ہو جو امن کو میٹھی روٹیوں، چپاتیوں، انجیرہ روٹیوں اور جولوف چاولوں میں بدل دے اور آپ یہ سب کچھ دنیا کے ساتھ مل بانٹ کر [کھا] سکیں۔”

امریکہ اپنے حصے کا کام کر رہا ہے

مئی میں امریکی وزیر خارجہ  اینٹونی بلنکن نے خوراک کے بحران پر اجتماعی کارروائی کے لیے اکٹھا کرنے کی خاطر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس اور ایک وزارتی اجلاس بلایا۔

اس  اجلاس کے دوران دنیا کے ممالک نے ایک “عالمی روڈ میپ” وضح کرنے پر اتفاق کیا۔ یہ روڈ میپ اِن ممالک کو دنیا بھر کے ضرورت مند لوگوں تک خوراک پہنچانے کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے کا پابند کرتا ہے۔  تقریباً 100 ممالک اس روڈ میپ کے منصوبے میں شامل ہو چکے ہیں۔

تھامس- گرین فیلڈ نے پورے افریقہ میں پناہ گزینوں، سیاسی پناہ کے متلاشیوں اور اندرونی طور پر بے گھر ہونے والے افراد کی مدد کرنے کی خاطر افریقہ کے لیے 127 ملین ڈالر سے زیادہ کی اضافی انسانی امداد کا اعلان بھی کیا۔ یہ امداد قرنِ افریقہ کے ممالک کے لیے امریکہ کے بین الاقوامی ترقیاتی ادارے کی طرف سے  امریکہ کی انسانی اور ترقیاتی امداد کی مد میں کیے جانے والے تقریباً 1.3 ارب ڈالر کے اضافے کے علاوہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس مالی سال کے آغاز کے بعد سے افریقہ کے لیے انسانی امداد تقریباً 6.6 ارب ڈالر ہو گئی ہے۔

تھامس-گرین فیلڈ نے کہا کہ “آج خوراک کی سلامتی کا بحران ہمیں فوری کاروائی کے لیے درکار تمام بنیادیں فراہم کرتا ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ بھوک کے خاتمے کے لیے ساری حکومتیں، تمام ممالک، [اور] لوگ آپس میں مل کر کام کریں۔”