دنیا کو جرأت مند خواتین کی ضرورت ہے: پومپیو

امن قائم کرنے والیاں، سرگرم کارکن، وکلاء، صحافی، سیاست دان انسانی حقوق کی محافظ: یہ ہیں وہ خواتین جنہوں نے بین الاقوامی جرأت مند خواتین کے سال 2020 کے ایوارڈ حاصل کیے ہیں۔

4 مارچ کو ایوارڈ دینے کی تقریب میں خاتون اول میلانیا ٹرمپ نے کہا، “ہم یہاں ایک ایسی خصوصیت کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے آئے ہیں جو سٹیج پرموجود یرسب خواتین میں پائی جاتی ہے اور وہ ہے جرأت۔ اپنے کام کے ذریعے وہ ہر جگہ عورتوں کو با اختیار بنا رہی ہیں۔”

ہر سال محکمہ خارجہ دنیا بھر سے تعلق رکھنے والی خواتین کو اُن کی بہادری، قیادت اور استقلال پر خراج تحسین پیش کرتا ہے۔ امریکہ 2007 سے لے کر اب تک  77 ممالک سے تعلق رکھنے والی 146 سے زائد خواتین کو یہ ایوارڈ دے چکا ہے۔

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے کہا، “دنیا کو اُن خواتین کی ضرورت ہے جو خطرات مول لینا اور جرات سے کام لینا جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور آج ایوارڈ حاصل کرنے والی (خواتین) بلا شبہ یہی کام کر رہی ہیں۔”

ظریفہ غفاری مارچ 2018 میں میدان شہر، افغانستان کی میئر منتخب ہوئیں۔ انہوں نے موت کی دھمکیاں ملنے کے باوجود ملک بھر کی عورتوں اور لڑکیوں پر ثابت کیا کہ ایک ایسے ملک میں خاتون سیاست دان ہونا ممکن ہے جہاں بہت کم عورتیں قائدانہ عہدوں پر فائز ہیں۔

صحافی لوسی کوچاریان آرمینیا میں صنفی بنیاد پر کیے جانے والے تشدد کے خلاف آواز بلند کرتی ہیں اور بچوں کی ذہنی صحت کے لیے کھڑی ہوتی ہیں۔ آرمینیا میں اُن پر سرِبازار آوازے کسے گئے اور انہیں ارکان پارلیمنٹ کی طرف سے بنائے گئے مقدمات کا سامنا کرنا پڑا۔

دفاعی وکیل، شاہالا ہمباتووا انسانی حقوق کے فعال کارکنوں، صحافیوں، بلاگروں، نوجوان سرگرم کارکنوں اور حزب مخالف کے سیاسی کارکنوں کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ وہ آذر بائیجان کی ایل جی بی ٹی آئی کمیونٹی کی وکالت کرنے کے لیے بھی مشہور ہیں۔ آج کل اُن پر ایسے افراد کا دفاع کرنے پر پابندی عائد ہے جن پر سیاسی طور پر “حساس مقدمات” قائم ہیں کیونکہ ان افراد نے حکومت کے لوگوں کی سنگین زیادتیوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔

صحافی زیمینہ گالارزا نے وہ دو انٹرویو کیے جن کے نتیجے میں بولیویا میں اکتوبر 2019 کا انتخابی فراڈ منظرعام پر آیا۔ ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کسی ٹیلی ویژن صحافی نے ایک ایسے ماہر کے ساتھ براہ راست انٹرویو کیا ہو جس نے حکومت کی طرف سے کی جانے والی دھاندلی کو ثابت کیا۔ زیمینہ کے کام کے نتیجے میں اُن مظاہروں کا آغاز ہوا جن کی وجہ سے سابق صدر ایوو مورالیس کو آخرکاراقتدار سے بے دخل کر دیا گیا۔

کلیئر اوئیدراگو ایک ایسی عوامی تحریک کی بانی ہیں جس کا مقصد نسوانی ختنوں کے بارے میں مردوں میں شعور اور آگاہی پیدا کرنا ہے۔ کلیئر اوئیدراگو برکینا فاسو میں عورتوں کی معاشی با اختیاری اور جسمانی سلامتی کی بہت بڑی حامی ہیں۔

شنجیانگ سے تعلق رکھنے والی نسلی قازق، سائرہ گل صوت بے کا شمار اُن اولین متاثرین میں ہوتا ہے جنہوں نے چین میں ویغوروں، قازقوں، کرغیزوں اور دیگر وسطی ایشیائی مسلمان نسلی گروہوں پر کیے جانے والے ظلم کے خلاف آواز آٹھائی۔

جرات مند خواتین کا ایوارڈ حاصل کرنے والی 12 خواتین کی تصاویر۔ (State Dept.)
اوپر والی لائن بائیں سے دائیں: ظریفہ غفاری، لوسی کوچاریان، شاہالا امباتووا، زمینہ گالازار، کلیئر اوئیدراگو، سائرہ گل صوت بے، نیچے والی لائن بائیں سے دائیں: سوزانا لیو، امایا کوپنز، جلیلہ حیدر، امینہ خولانی، یاسمین القاضی، ڈاکٹر ریٹا نیامپنگا۔ (State Dept.

سوزانا لیو ملائیشیا میں مبینہ طور پر ریاستی ایجنٹوں کے ہاتھوں اغوا ہونے والے مذہبی اقلیتوں کے افراد کے لیے جد و جہد کر رہی ہیں۔ ان کے شوہر عیسائی پادری تھے اور2017 سے لاپتہ ہیں۔ ان کی متاثرین کے لیے کی جانے والی  جد و جہد کی وجہ سے انہیں پولیس کی جانب سے ہراساں کیا جاتا ہے اور انہیں موت کی دھمکیاں ملتی ہیں۔

پولیس نے ستمبر 2018 میں پرامن طور پر احتجاج کرنے پر نکاراگوا میں 19 اپریل کی یونیورسٹی تحریک کی راہنما، امایا کوپنز کو اغوا کیا۔ بعد میں انہیں سیاسی قیدیوں کی بھوک ہڑتال کرنے والی ماؤں کے لیے پانی لے جانے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جس سے انہیں دسمبر 2019 میں رہائی ملی۔ امایا اپنے ملک میں جمہوریت کی حمایت کرنا جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جلیلہ حیدر پاکستان کے غربت زدہ صوبے بلوچستان میں انسانی حقوق کی وکیل کی حیثیت سے عورتوں کی سلامتی کا دفاع کرتی ہیں۔ وہ ایسی عورتوں کو مفت قانونی خدمات پیش کرتی ہیں جو فیس ادا کرنے کی استظاعت نہیں رکھتیں۔ وہ اُن مقدمات میں خصوصی طور پر مفت خدمات فراہم کرتی ہیں جن کا تعلق گھریلو تشدد، جنسی طور پر ہراساں کیے جانے اور عدالتوں سے ماورا ہلاکتوں سے ہوتا ہے۔

امینہ خولانی نے شام میں اسد حکومت کا تشدد برداشت کیا۔ اس کے بعد سے وہ خاندانوں کے اُن افراد کا سراغ لگانے میں مدد کر رہی ہیں جو یا تو لاپتہ ہو گئے ہیں یا جنہیں اسد حکومت نے قید میں ڈال رکھا ہے۔ انہیں “پرامن فعالیت” کی وجہ سے چھ ماہ قید میں رکھا گیا۔

سماجی، قبائلی اور ثقافتی رسومات پر قابو پاتے ہوئے، یاسمین القاضی یمن میں شہری خانہ جنگی ختم کرنے میں مدد کرنے کی خاطر عورتوں کو متحرک کرتی ہیں۔ ‘معارب گرلز فاؤنڈیشن’ نامی اُن کا ادارہ فوج کی طرف سے بچوں کو ‘بچہ سپاہی’ کے طور پر بھرتی کرنے کے خلاف کام کرتا ہے۔

ڈاکٹر ریٹا نیامپنگا زمبابوے میں خواتین قیدیوں کے حقوق کی وکالت کرتی ہیں۔ انہوں نے اپنے ملک میں منصفانہ اور انصاف پر مبنی قانونی نظام کے لیے جد و جہد کی خاطر 2012 میں خواتین قیدیوں کی مدد کے ٹرسٹ (فیم پرِسٹ) کی بنیاد رکھی۔ ان پر بغاوت کا الزام لگایا گیا ہے اور انہیں اور ان کے اہل خانہ کو سنگین دھمکیوں اور برسرعام توہین کا سامنا کرنا پڑا ہے۔