عالمی رہنما شام کے 4 اپریل کو کیے گئے اُن کیمیائی حملوں کی مذمت کر رہے ہیں جنہیں صدر ٹرمپ نے کیمیائی ہتھیاروں کے “وحشیانہ” حملے قرار دیا ہے۔ اِن حملوں میں بیسیوں بے گناہ شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

صدر ٹرمپ نے کہا، “اس بات سے کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا کہ شام نے ممنوعہ کیمیائی ہتھیار استعمال کیے، کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن کے تحت عائد ہونے والی اپنی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی کی اور اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اصرار کو نظر انداز کیا۔”

اقوام متحدہ کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کو “ناقابل قبول” قرار دے چکی ہے۔

شام نے چار سال قبل کیمیائی ہتھیاروں کے کنونشن میں شمولیت اختیار کی تھی۔ یہ سمجھوتہ کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی عائد کرتا ہے اور تمام ممالک سے اپنے اپنے ذخیروں کو بین الاقوامی سطح پر قابلِ تصدیق طریقوں سے تباہ کرنے کا تقاضہ کرتا ہے۔ اس سمجھوتے کے تحت “تمام نوعِ انسانی کی خاطر” کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کے کسی بھی امکان کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

کیمیائی ہتھیار کیا ہیں؟

Illustration of chemistry beaker with bomb inside (State Dept./Doug Thompson)

اِن [ہتھیاروں کے ذریعے] زہریلے کیمیائی مادوں کو لوگوں کو ہلاک کرنے یا کسی ہدف کو نقصان پہنچانے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں میزائلوں، بمبوں، توپ کے گولوں، بارودی سرنگوں یا دیگر ذرائع سے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اِن  زہریلے کیمیائی مادوں سے حملے کا نشانہ بننے والوں کی سانس بند ہو جاتی ہے، انہیں دورے پڑتے ہیں اور مہلک مقدار کی صورت میں وہ پانچ منٹ کے اندر ہلاک ہو جاتے ہیں۔

مسٹرڈ گیس جیسے کچھ موادوں کے اثرات آہستہ آہستہ ظاہر ہوتے ہیں۔ ان کی شکل مائع، گیس، سپرے، قطروں یا گرد کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ اِن میں تیز ترین رفتار سے پھیلنے والے اور مہلک ترین، سارین اور وی ایکس جیسے اعصابی کیمیائی مادے بھی شامل ہیں۔

کیمیائی ہتھیاروں کا کنونشن کیا ہے؟

Illustration of chemistry beaker with image of globe inside and two olive branches alongside (State Dept./Doug Thompson)

1925ء کے جنیوا پروٹوکول سمیت کئی ایک بین الاقوامی سمجھوتوں میں کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے استعمال کو ختم کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کیمیائی ہتھیاروں کا کنونشن سب سے زیادہ  دُور رس نوعیت کا حامل  ہے۔ ( جنیوا پروٹوکول میں استعمال کو تو غیرقانونی قراراد دیا گیا تھا مگر کیمیائی ہتھیاروں کے رکھنے کو غیرقانونی قرار نہیں دیا گیا تھا۔)

یہ کنونشن ایک تاریخی سمجھوتہ ہے جس پر1993ء میں پیرس میں مذاکرات کیے گئے۔ یہ کنونشن 1997ء میں اُس وقت نافذالعمل ہوا جب 65ویں ملک نے اس کی توثیق کی۔ آج 192 ممالک اس کنونشن کے فریق ہیں اِن میں شام 2013ء  سے اور حالیہ ترین فریقین ۔۔۔ برما اور انگولا ۔۔۔ 2015ء سے شامل ہوئے ہیں۔

اس کنونشن کے تحت کیمیائی ہتھیاروں پر پابندی عائد کی گئی ہے اور اِن کی تباہی اور  پیداوار کی سہولیات کے خاتمے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

اس کنونشن کے تمام فریقین کے لیے لازم ہے کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کے اپنے ذخیروں کی مقدار ظاہر کریں اور ایک مقررہ عرصے میں انہیں تباہ کریں۔ اس کنونشن میں یہ تصدیق کرنے کی خاطر کہ کہیں نئے کیمیائی ہتھیار تو تیار نہیں کیے جارہے، سرکاری اور نجی کیمیائی سہولیات کے معائنے کے لیے ایک جامع نظام قائم کیا گیا ہے۔ اس کے دستخط کنندگان دوسرے لوگوں کی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال میں معاونت یا حوصلہ افزائی نہیں کر سکتے۔

یہ کنونشن کس طرح کام کرتا ہے اور اس کا نفاذ کون کرتا ہے؟

Illustration of white dove perched on top of corked chemistry beaker with bomb inside (State Dept./Doug Thompson)

نیدر لینڈ کے شہر ہیگ میں قائم، کیمیائی ہتھیاروں کی روک تھام کی تنظیم اپنے معائنہ کاروں کو دنیا بھر میں بھیجتی ہے تاکہ وہ یہ تصدیق کریں کہ ممبر ممالک اس معاہدے کے تحت اُن پر عائد ہونے والی اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کر رہے ہیں۔

اس تنظیم نے اپنے کام کی وجہ سے 2013 کا امن کا نوبیل انعام جیتا۔

امریکہ کے محکمہِ خارجہ کا ہتھیاروں کے کنٹرول، تصدیق اور تعمیل کا بیورو، امریکہ کی جانب سے اس کنونشن پر عمل درآمد کی نگرانی کرتا ہے۔

اس سے کیا فرق پڑا ہے؟

 

Illustration of white dove placing olive branch in front of chemistry beaker with globe inside (State Dept./Doug Thompson)

اس تنظیم کے ڈائریکٹر جنرل، احمد عزمچو کا کہنا ہے کہ چورانوے فیصد ممبر ممالک کے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیروں کو تباہ کر دیے جانے کی تصدیق کی جا چکی ہے۔

اس تنظیم نے 6,327  معائنے کیے ہیں اور 72,300  میٹرک ٹن ممنوعہ  ذخیروں کو تباہ کیا ہے۔ 74 لاکھ کے لگ بھگ ہتھیار تباہ کیے جا چکے ہیں۔ ممبر ممالک نے کیمیائی ہتھیار بنانے والی 90 سہولیات کو یا تو تباہ کر دیا ہے یا اُنہیں کسی دوسرے مقصد کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔

یہ تنظیم رکن ممالک کے باقیماندہ ذخیروں کی تباہی کے مقرر کردہ نظام الاوقات کی نگرانی کر رہی ہے۔

پہلی عالمی جنگ میں لڑائی کے دوران کلورین، مسٹرڈ گیس اور دیگر زہریلے مادوں کا وسیع پیمانے پر استعمال کیا گیا جس کے نتیجے میں 100,000 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ گو کہ دنیا جنگوں سے پاک تو نہیں ہوئی، مگر 21ویں صدی میں جنگی فریقین نے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی حیثیت سے کیمیائی مادوں کے استعمال کا سہارا نہیں لیا۔

تاہم شام کی خانہ جنگی ایک استثناء ہے۔

تصویری خاکے محکمہِ خارجہ کے  ڈگ تھامپسن نے تیار کیے۔