دنیا کا سب سے بڑا نیویارک سٹاک ایکس چینج [بازار حصص] امریکہ کے مالیاتی نظام میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے اور یہ عالمی رجحانات کی عکاسی کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر اثرانداز بھی ہوتا ہے۔
اِس ایکس چینج کا آغاز جس میں تمسکات اور حصص کی خرید و فرخت کی جاتی ہے مئی 1792ء میں ہوا۔ نیویارک کے بڑے بڑے بروکروں میں شمار ہونے والے 24 بروکر جو کہ سب کے سب مرد تھے شہر کا پہلا سٹاک ایکس چینج قائم کرنے کے لیے مین ہیٹن میں ایک درخت کے نیچے اکٹھے ہوئے۔
آج اس ایکس چینج کی سربراہ ایک خاتون ہیں۔ سٹیسی کننگ ہیم نے 1994 ء میں ایک تربیت کار کے طور پر نیویارک کے سٹاک ایکس چینج میں اپنی پیشہ وارانہ زندگی کا آغاز کیا۔ وہ محنت کے بل بوتے پر ترقی کرتے کرتے چیف آپریٹنگ آفیسر کے عہدے پر پہنچیں اور آج وہ اس سٹاک ایکس چینج کی 67ویں صدر ہیں۔
مخففاً این وائی ایس ای کہلانے والے نیویارک سٹاک ایکس چینج کے چیئرمین، جیف سپریچر کا کہنا ہے، ” این وائی ایس ای گروپ میں سٹیسی ایک قائدانہ نسل کی نمائندگی کرتی ہیں۔ سٹیسی اور ہماری ٹیم ثابت قدمی سے یہ ارادہ کیے ہوئے ہیں کہ امریکہ بد دستور دنیا کے سرمائے کا مرکز بنا رہے۔”

نیویارک سٹاک ایکس چینج میں2,300 کمپنیوں کے حصص کا کاروبار ہوتا ہے اور 2017ء میں اس کی مالیت 22 کھرب ڈالر سے زیادہ تھی۔ یہ رقم ایکس چینج پر حصص کے کاروبار کی مجموعی قیمت کے برابر ہے جسے مارکیٹ کی زبان میں “سرمائے کا کاروبار” کہا جاتا ہے۔
سروے کی کمپنی گیلپ کی تحقیق کے مطابق 2017 میں لگ بھگ 54 فیصد امریکیوں کا کہنا تھا کہ انہوں نے یا تو انفرادی حصص، میوچل فنڈ، پنشن یا پھر ریٹائرمنٹ کے پلانوں کے ذریعے مارکیٹ میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔
اپنی طرز کا واحد ادارہ

جب نیویارک کے سٹاک ایکس چینج کی بنیاد رکھی گئی تو ایکس چینجوں کی ایک عالمی برادری پہلے سے ہی وجود میں آ چکی تھی۔ دنیا میں سب سے پہلے سٹاک ایکس چینج کی بنیاد ایمسٹرڈیم میں 1602ء میں رکھی گئی تھی۔ اس کے بعد لندن اور جرمنی میں فرینکفرٹ کے سٹاک ایکس چینج قائم کیے گئے۔
این وائی ایس ای کے تاریخ دان پیٹر ایچ بتاتے ہیں کہ نیویارک سٹاک ایکس چینج کی بنیاد ہالینڈ کے ایکس چینج کی طرز پر رکھی گئی تھی۔ گوکہ ایمسڑڈیم کے سٹاک ایکس چینج کی شروعات ایسٹ انڈیا کمپنی کے حصص کے کاروبار سے ہوئیں تھیں مگر نیویارک ایکس چینج کی اولین پیشکش میں انقلابی جنگ کے دوران چڑھنے والے قرضوں کی ادائیگی کی غرض سے نئی نئی تشکیل پانے والی امریکی حکومت کی طرف سے جاری کردہ بونڈز شامل تھے۔
اگرچہ پہلا امریکی سٹاک ایکس چینج فلاڈیلفیا میں قائم ہوا مگر نیویارک کا سٹاک ایکس چینج بہت جلد نمایاں ترین حیثیت اختیار کر گیا۔
پیٹر ایچ بتاتے ہیں، “گو کہ اس وقت ہر شہر میں بنک ہوتے تھے تاہم نیویارک انتہائی تیزی سے ملک میں بنکاری کا سب سے بڑا مرکز بن گیا۔ اگر آپ کوئی بڑا پراجیکٹ شروع کرنا چاہتے تھے اور آپ کو سرمائے کی ضرورت تھی تو [نیویارک] ایک ایسی جگہ بن چکی تھی جہاں سب کو ہمارے پاس آنا پڑتا تھا۔”
آج نیویارک سٹاک ایکس چینج دنیا کا واحد ایسا بڑا سٹاک ایکس چینج ہے جس میں کاروبار کے لیے ایک ہال موجود ہے۔ ایچ کہتے ہیں، “حقیقی معنوں میں یہی چیز ہمیں اور کاروبار کرنے کے ہمارے طریقے کو دوسروں سے ممتاز بناتی ہے۔ این وائی ایس ای دنیا کی عظیم ترین کمپنیوں کی ایک برادری ہے۔ وہ مارکیٹ کے بارے میں اپنے خیالات و نظریات لے کر یہاں آ سکتے ہیں۔”
اپنی ابتدا سے لے کر آج تک نیویارک کا سٹاک ایکس چینج مارکیٹ کے رجحانات کی نمائندگی کرتا چلا آ رہا ہے اور یہ ایک ایسا ذریعہ مہیا کرتا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی معیشت کو کیا چیز متحرک رکھے ہوئے ہے۔ اپنے ابتدائی برسوں میں این وائی ایس ای کی توجہ ریلوے اور اسے چلانے والی کمپنیوں پر مرکوز تھی۔ 1990 کی دہائی میں کاریں بنانے والی کمپنیوں کی آمد ہوئی اور اس کے بعد ہوائی جہاز، کمپیوٹر کی کمپنیاں آئیں اور آج ڈیجیٹل ٹکنالوجی کی کمپنیوں کا دور ہے۔ ایچ کے مطابق آپ کو مستقبل کی بڑی بڑی اختراعات ہمیشہ نیویارک سٹاک ایکس چینج میں رجسٹرڈ کمپنیوں کی شکل میں نظر آئیں گیں۔
یہ مضمون فری لانس مصننفہ مئیو آلسُپ نے نے تحریر کیا۔