دنیا کے ملکوں کا چین سے انسانی حقوق کی پامالیاں ختم کرنے کا مطالبہ

احتجاج کرنے والے ایک آدمی نے پس منظر میں چینی جھنڈے کے اوپر بنے ہاتھ کی تصویر والا کتبہ اٹھا رکھا ہے (© Emrah Gurel/AP Images)
استنبول، ترکی میں یکم ستمبر کو ایک مظاہرے میں ایک ویغور نے کتبہ اٹھا رکھا ہے۔ (© Emrah Gurel/AP Images)

چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بین الاقوامی غم وغصے کا باعث بن رہی ہیں۔ درجنوں کے حساب سے ممالک سی سی پی سے ویغوروں کی اجتماعی حراست اور اپنی دیگر زیادتیاں ختم کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

6 اکتوبر کو اقوام متحدہ کے حوالے کیے جانے والے ایک مشترکہ بیان  میں 39 ممالک نے سی سی پی کو شنجیانگ صوبے میں نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے خلاف “انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں” کا اور ہانگ کانگ میں حکومت کے آمرانہ رویے کا قصوروار ٹھہرایا۔

مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے، “ہمیں شنجیانگ میں انسانی حقوق کی صورت حال اور ہانگ کانگ میں ہونے والے حالیہ واقعات کے بارے میں سنگین تشویش ہے۔ ہم چین سے انسانی حقوق کے احترام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ [ہمارا یہ مطالبہ] بالخصوص مذہبی اور نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے بارے میں ہے [اور اِن میں سے بھی] خصوصی طور پر شنجیانگ اور تبت کے لوگوں کے لیے ہے۔”

اقوام متحدہ میں جرمنی کے سفیر، کرسٹو ہوئیسگن نے یہ بیان اقوام متحدہ کو پہنچایا۔ اس بیان پر دیگر ممالک کے علاوہ امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا، ڈنمارک، ایستونیا، فرانس، ہیٹی، ہنڈوراس، آئس لینڈ، جاپان، جزائر مارشل اور نیوزی لینڈ نے دستخط کیے۔

شنجیانگ اور ہانگ کانگ میں سی سی پی کی زیادتیاں اس کے اُس ظلم و جبر کا حصہ ہیں جس میں مذہبی اقلیتوں پر ظلم کرنا، صحافیوں اور حقوق کے حامیوں کو جیلوں میں ڈالنا اور لوگوں کی نجی زندگیوں میں دخل انداز ہوتے ہوئے نگرانی کرنا شامل  ہے۔

نسلی اور مذہبی اقلیتوں کے ساتھ زیادتیاں

2017ء سے سی سی پی دس لاکھ سے زائد ویغوروں اور دیگر مسلمان اقلیت کے افراد کو حراستی کیمپوں میں قید کر چکی ہے۔ اِن کیمپوں میں مسلمانوں کو اپنی مذہبی شناخت ترک کرنے اور سی سی پی کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ شنجیانگ کے کیمپوں میں جبری نس بندیوں کی اطلاعات بھی منظر عام پر آ چکی ہیں۔

تبت میں بیجنگ نے بدھ مت کی خانقاہوں میں تبتی زبان پڑہانے پر پابندی لگائی، دلائی لامہ کی تقدیس کو روکا گیا اور [تقدیس کرنے والوں کو] سزا دی گئی، حکومت کے زیرانتظام چلنے والے بورڈنگ یعنی رہائشی سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے بچوں کو اپنے گھر چھوڑنے پر مجبور کیا گیا، اور تبتی بدھ مت کی ایسی سرکاری تشریحات جاری کی گئیں جو مذہب سے تبتی شناخت کو یقینی طور پر مٹانے والے سی سی پی کے نظریے سے مطابقت رکھتی ہیں۔

اندرونی منگولیا میں سی سی پی منگولیائی زبان کی جگہ مینڈرین چینی زبان لا رہی ہے۔ اقلیتی گروپ اس پالیسی کو اپنی ثقافت کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔

منحرفین کو جیلوں میں بند کرنا

سی سی پی وکلا، سرگرم کارکنوں اور صحافیوں کو حراست میں لیتی ہے اور اکثر اُن پر ایسے وسیع المعانی الزامات لگائے جاتے ہیں جن کے لیے من پسند دفعات لگائی جا سکتی ہیں۔

صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے والی کمیٹی کے سالانہ سروے کے مطابق، 2019ء میں چین نے دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں زیادہ صحافیوں کو گرفتار کیا۔ حکومت، پارٹی لیڈروں کے انتخاب کا مطالبہ کرنے پر، ووہان میں حکومت کے کووڈ-19 کے ابتدائی ردعمل پر تنقید کرنے پر، اور ماحولیاتی یا انسانی حقوق پر تشویش کا اظہار کرنے پر بھی سرگرم کارکنوں کو گرفتار کر چکی ہے۔

وعدہ خلافیاں

بیجنگ نے جون میں ہانگ کانگ کا سکیورٹی قانون منظور کیا اور شہر کو سی سی پی کی مزید براہ راست حکمرانی میں دے دیا اور 1984 کے چین اور برطانیہ کے مشترکہ اعلامیے کی شرائط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بین الاقوامی قانون کو توڑا۔ یہ معاہدہ اقوام متحدہ کے ہاں رجسٹرڈ ہے۔

امریکہ کے محکمہ خارجہ کے مطابق یہ قانون ہانگ کانگ کی خود مختاری کو ختم کرتا ہے، جمہوری اداروں کو مفلوج بناتا ہے، انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرتا ہے، اور عدالتی آزادی اور انفرادی آزادیوں کو ختم کرتا ہے۔

روئٹرز کے مطابق، 20 ممالک سے تعلق رکھنے والے کم و بیش 200 لیڈروں نے 23 مئی کو ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ یہ قانون “شہر کی خود مختاری، قانون کی حکمرانی اور بنیادی آزادیوں پر ایک بھرپور وار ہے۔”

عام شہریوں کی نگرانی

سی سی پی عام شہریوں کی نگرانی کرتی ہے۔ یہ شہری سیاسی نظریات پر آن لائن بات کرنے یا نئے کورونا وائرس کے بارے میں اپنے رفقائے کار کو متنبہ کرنے جیسی عام باتوں کی وجہ سے پارٹی کی دشمنی کا خطرہ مول لیتے ہیں۔

چینی حکام نے ڈاکٹروں کو خاموش کرا دیا اور 31 دسمبر کو صحت کی عالمی تنظیم کو مطلع کرنے کے بعد تین ہفتے تک انسانوں سے انسانوں کو کورونا وائرس کے لگنے کی معلومات دبانے رکھیں۔

محکمہ خارجہ کا کہنا ہے کہ سی سی پی  مواصلات کی نگرانی کرنے کے لیے دسیوں ہزاروں افراد کو استعمال کرتی ہے  اور یہ افراد ذاتی خطوط، فون کالوں، سوشل میڈیا کی پوسٹوں، اور ان لائن خبروں اور اشتہاروں کا جائزہ لیتے ہیں۔

وزیر خارجہ مائیکل آر پومپیو نے واشنگٹن میں 14 اکتوبر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ امریکہ انسانی حقوق کا احترام کرنے کی خاطر سی سی پی پر دباؤ ڈالنے کے لیے ایک عالمگیر اتحاد تشکیل دے رہا ہے۔

پومپیو نے کہا، “ہم چینی کمیونسٹ پارٹی سے صرف وہ مطالبات  کر رہے ہیں جو ہم ہر ایک ملک سے کرتے ہیں یعنی (چین کا) اپنے ہر ایک شہری کی بنیادی آزادیوں، انسانی وقار، مذہبی آزدی کو تحفظ دینا۔”