دنیا کے ممالک کی بھاری اکثریت کا پوٹن سے یوکرین میں جنگ کے خاتمے کا مطالبہ

دنیا بھر کے ممالک یوکرین کے خلاف روسی حکومت کی بلا اشتعال اور نامعقول جنگ کی مذمت کر رہے ہیں۔

2 مارچ کو ایک غیر معمولی ہنگامی اجلاس میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کی اور مطالبہ کیا کہ ماسکو یوکرین میں اپنی فوجی کارروائیاں فوری طور پر بند کرے۔

صدر بائیڈن نے ووٹنگ کے بعد کہا، “اقوام متحدہ کا یہ غیر معمولی اقدام ایک خودمختار پڑوسی پر روس کے وحشیانہ حملے پر عالمی غم و غصے کی حد کو ظاہر کرتا ہے اور بے مثال عالمی اتحاد کا مظاہرہ کرتا ہے۔”

اس اجلاس کا انعقاد 40 سالوں میں پہلا ایسا موقع ہے کہ جب سلامتی کونسل نے جنرل اسمبلی کا خصوصی ہنگامی اجلاس بلایا ہے۔

 اقوام متحدہ کے ایک اجلاس میں موجود لوگ (© Seth Wenig/AP Images)
2 مارچ کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں سکرین پر روسی حکومت سے یوکرین میں اپنی جنگ ختم کرنے کا مطالبہ کرنے والی تاریخی قرارداد کے سلسلے میں ڈالے جانے والے ووٹوں کی تعداد دکھائی دے رہی ہے۔ (© Seth Wenig/AP Images)

اقوام متحدہ کے 141 رکن ممالک نے روس کے مزید حملے کی مذمت کرتے ہوئے یوکرین کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کی حمایت کرنے والی قرارداد (پی ڈی ایف، 201 کے بی ) کے حق میں ووٹ دیا۔

صرف پانچ ممالک یعنی روس، بیلاروس، شام، اریٹیریا اور شمالی کوریا نے قرارداد کے خلاف ووٹ دیا جبکہ 35 ممالک نے ووٹ نہیں دیا۔

اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتیرس نے ووٹنگ کے بعد صحافیوں کو بتایا، “جنرل اسمبلی کا پیغام بلند آواز اور واضح ہے۔ یوکرین میں تصادم ختم کرو – اب۔ بندوقوں کو خاموش کرو – اس وقت گزرتا ہوا ہر لمحہ  ٹائم بم کی طرح ہے۔”

 لنڈا تھامس- گرین فیلڈ مائکروفون کے ذریعے بات کر رہی ہیں (© Seth Wenig/AP Images)
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر لنڈا تھامس- گرین فیلڈ 2 مارچ کو نیویارک میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں جنرل اسمبلی کے ہنگامی اجلاس کے دوران خطاب کر رہی ہیں۔ (© Seth Wenig/AP Images)

اقوام متحدہ میں امریکی نمائندہ سفیر لنڈا تھامسگرین فیلڈ نے کہا، “دنیا نے واضح، متحد آواز میں کی ہے۔ ہم نے ثابت کیا ہے کہ روس الگ تھلگ اور تنہا ہو گیا ہے۔”

امریکہ نے پہلے ہی کریملن کو جوابدہ ٹھہرانے اور روس کی طاقت کے استعمال کو جاری رکھنے کی صلاحیت کو کمزور کرنے کے لیے تیار کی گئیں پابندیاں لگا دی ہیں اور روس کو جو کچھ برآمد کیا جا سکتا ہے اس پر نئی حدود عائد کر دی ہیں۔ دوسرے ممالک نے بھی روسی رہنماؤں اور مالیاتی اداروں پر پابندیاں لگانے کے لیے اقدامات اٹھائے ہیں تاکہ ماسکو کی لڑائی جاری رکھنے کی صلاحیت کو روکا جا سکے۔

دنیا بھر میں، یوکرین کے پرچمی رنگوں میں تیار کیے گئے لباس پہنے ہوئے پرامن مظاہرین یوکرین کے لیے اپنی حمایت کا مظاہرہ کر رہے ہیں اور روسی حکومت کے اقدامات کی مذمت کر رہے ہیں۔

تھامس-گرین فیلڈ نے کہا، “یوکرین میں لڑنے والے زیادہ تر مرد اور عورتیں اُس وقت پیدا بھی نہیں ہوئے تھے جب دنیا کی اقوام  امن کی خاطر متحد ہونے کے لیے آخری بار اس طرح اکٹھیں ہوئیں تھیں۔”

اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی ایک بڑی تعداد نے بیلاروس سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اپنی سرزمین کو روسی حملے کے لیے صف بندی کی خاطر استعمال کرنے کی اجازت نہ دے۔ بیلاروس روسی مسلح افواج کو مادی مدد فراہم کرکے یوکرین پر حملے میں ملوث چلا آ رہا ہے۔

روس کی بمباری کی مہم میں گھروں، سکولوں، ہسپتالوں، بابن یار ہولوکاسٹ میموریل سینٹر کے قریب ایک علاقے اور قبرستانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کا اندازہ ہے کہ 10 لاکھ افراد، جن میں سے نصف بچے ہیں، روس کے حملوں کی وجہ سے پہلے ہی یوکرین چھوڑ کر جا چکے ہیں اور مزید لوگ محفوظ مقامات کی جانب جا رہے ہیں۔

گزشتہ سال کے دوران امریکہ نے سکیورٹی کی مد میں یوکرین کو ایک ارب ڈالر سے زیادہ کی امداد فراہم کی ہے اور حال ہی میں انسانی بنیادوں پر تقریباً 54 ملین ڈالر کی اضافی امداد کا اعلان کیا گیا ہے۔ آٹھ سال قبل تنازعہ شروع ہونے کے بعد سے اب تک، امریکہ نے یوکرین کے لیے مجموعی طور پر 5.6 ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا ہے، جس میں سکیورٹی اور غیر سیکیورٹی امداد بھی شامل ہے۔

تھامس-گرین فیلڈ نے ووٹنگ کے بعد کہا، “ہم نے اقوام متحدہ کے منشور کا اعادہ کیا ہے، یوکرین میں انسانی حقوق اور انسانی بحران سے نمٹنے کا وعدہ کیا ہے، اور دنیا کی روح کی اس جنگ میں ایک دوسرے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔”