ہر سال چار جولائی کو امریکہ کے طول و عرض میں لاکھوں لوگ امریکہ کا یوم آزادی مناتے ہیں اور اس موقع پر آتشبازیوں کا مظاہرہ کرتے ہیں، پریڈوں کا اہتمام کرتے ہیں اور گھر سے باہر پارٹیاں منعقد کرتے ہیں۔ دوسرے ممالک میں بھی امریکہ کا یوم آزادی منایا جاتا ہے۔ اِن میں سے ہر ملک اس دن کو اپنی منفرد روایات کے ساتھ مناتا ہے جس کے دوران امریکی نظام میں درج آزادیوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ اس میں حیرانگی کی کوئی بات نہیں کہ اِن سب ممالک میں جمہوریت ہے۔
اوپر تصویر میں دکھائی دینے والا منظر دریائے ڈیٹرائٹ کے کنارے کا ایک منظر ہے۔ یہ دریا کینیڈا اور امریکہ کے درمیان سرحد کا کام دیتا ہے۔ جولائی کے مہینے میں ہونے والی آتشبازیوں کے مظاہرے آزادی کے بین الاقوامی میلے کا حصہ ہوتے ہیں۔ کینیڈا کا شہر ونڈسراور امریکی ریاست مشی گن کا سب سے بڑا شہر ڈیٹرائٹ ہر سال مشترکہ طور پر اس میلے کی میزبانی کرتے ہیں۔ یہ دونوں شہر یکم جولائی کو پڑنے والا کینیڈا ڈے اور چار جولائی کو امریکہ کا یوم آزادی اکٹھے مل کر مناتے ہیں۔ اس میلے میں شامل خصوصی پروگراموں کو دیکھنے کے لیے ہر سال 35 لاکھ افراد آتے ہیں۔ یہاں کے آتشبازی کے مظاہرے کا شمار شمالی امریکہ کے آتشبازیوں کے بڑے مظاہروں میں ہوتا ہے۔
ذیل میں اُن دور دراز مقامات کی مثالیں پیش کی جا رہی ہیں جہاں پر امریکی موسیقی، کھانوں اور ثقافت کے ساتھ چار جولائی کو امریکی ورثے کو خراج تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ مقامی لوگ امریکی تارکین وطن اور امریکی سیاحوں کے ساتھ مل کا یہ دن مناتے ہیں۔
ڈنمارک

شمالی ڈنمارک کے ایک چھوٹے سے ‘ریبیلد’ نامی قصبے میں چار جولائی کی تقریبات کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ اس میلے کا آغاز کچھ یوں ہوا کہ انیسویں صدی میں ریبیلد کے رہنے والے کئی لوگ ترک وطن کرکے امریکہ چلے آئے۔ تاہم بعد میں ان میں سے کچھ لوگ واپس لوٹ گئے اور اپنے ساتھ چار جولائی منانے کی روایات بھی لیتےگئے۔
اس میلے کو ‘ریبیلد فیست’ کا نام دیا گیا اور اس کا آغاز ایک سو سال سے بھی زائد عرصہ پہلے ہوا۔ اس میں آتشبازی، امریکی موسیقی، امریکی طرز کے ہاٹ ڈاگ اور باربی کیو کھانے اور ڈنمارک کے ‘سمور برود’ نامی کھلے سینڈ وِچزکے علاوہ امریکی اور ڈینش دونوں ثقافتوں سے متعلق پروگرام بھی شامل ہوتے ہیں۔
آئرلینڈ

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ آئرش لوگ چار جولائی کو اتنے ہی جوش و خروش سے مناتے جتنے جوش و خروش سے امریکی سینٹ پیٹرکس ڈے مناتے ہیں۔
آئرلینڈ میں چار جولائی کو ہونے والیں سب سے بڑی تقریبات میں سے ایک تقریب کا تعلق نیو راس شہر سے ہے۔ یہ وہی شہر ہے جہاں صدر جان ایف کینیڈی کے پردادا نے پرورش پائی۔ اس شہر میں کئی ایک تقریبات ہوتی ہیں۔ اِن کا آغاز امریکہ کے اعلان آزادی کے سرعام پڑھنے سے ہوتا ہے اور اس تقریب کے حاضرین ‘بوسٹن ٹی پارٹی’ کی اداکارانہ پیشکش بھی دیکھ سکتے ہیں۔ ‘بوسٹن ٹی پارٹی’ کا تعلق 1773 کے اُس واقعے سے ہے جب نوآباد کاروں نے “نمائندگی کے بغیر کوئی ٹیکس قبول نہیں” کا نعرہ لگاتے ہوئے برطانیہ کی چائے کی پتی کو بوسٹن بندرگاہ کی پانیوں میں پھینک دیا تھا۔”
ناروے

ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں 30 برس سے زائد عرصے سے چار جولائی کی تقریبات منعقد ہوتی چلی آ رہی ہیں۔ اِن میں براہ راست موسیقی، پریڈیں، امریکی کھانے، بیس بال اور سافٹ بال کے مقابلوں کے علاوہ آتشبازی کا ایک مظاہرہ بھی شامل ہوتا ہے۔ لوگ فروگنر پارک میں اکٹھے ہوتے ہیں جہاں ناروے کی امریکی رابطہ کاری کی کونسل ایسے پروگراموں کا اہتمام کرتی ہے جو مقامی لوگوں اور یہاں رہنے والے امریکیوں میں یکستان طور پر مقبول ہوتے ہیں۔
دیگر مقامات میں ہونے والے پروگراموں میں لیلے ستروم میں ہونے والی ایک پریڈ بھی شامل ہوتی ہے جس میں پرانی امریکی کاریں، ، موسیقی کی براہ راست پیشکش اور امریکی کھانے شامل ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ ملک کے لِسٹر نامی جنوبی ڈسٹرکٹ میں ہر سال جون کے آخر میں ایک چار روزہ امریکی میلہ بھی ہوتا ہے۔
آسٹریلیا

امریکی تارکین وطن آسٹریلین لوگوں کے ساتھ مل کر ہر سال چار جولائی کو سڈنی جیسے شہروں میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ اس حوالے سے در حقیقت جنوبی نصف کرے کی سب سے بڑی تقریبات کی میزبانی سڈنی کا شہر کرتا ہے۔ اِن تقریبات کا مرکز ڈارلنگ ہاربر کا علاقہ ہوتا ہے۔ بڑے بڑے مجمعوں میں شامل لوگوں نے سرخ، سفید اور نیلے رنگوں کے کپڑے پہنے ہوتے ہیں جو امریکی اور آسٹریلین پرچموں کے رنگ ہیں۔