دوسری عالمی جنگ میں امریکیوں نے یورپ میں فتح کا دن کیسے منایا

جب دوسری عالمی جنگ کے اتحادیوں نے نازی جرمنی کی طرف سے ہتھیار ڈالے جانے کو منظور کیا تو دنیا کے بہت سے حصوں میں یورپ میں فتح کے دن (وی-ای ڈے) کے جشن کو ایک تہوار کے طور پر منایا گیا۔

اس واقعے کے نتیجے میں 8 مئی 1945 کو یورپ کے بیشتر ممالک، شمالی امریکہ اور دیگر مقامات پر عوامی سطح پر بے اختیار جذباتی جشن دیکھنے میں آئے۔ گاتے، ناچتے اور آگ کے الاؤ روشن کرتے ہوئے لاکھوں کی تعداد میں لوگ لندن اور پیرس کی سڑکوں پر نکل آئے۔ کیونکہ ایشیا اور بحرالکاہل میں جاپان کے ساتھ جنگ ابھی جاری تھی لہذا بعض رہنماؤں نے احتیاط سے کام لینے کا مشورہ دیا۔ اِن میں سے ایک، صدر ہیری ٹرومین بھی تھے۔

نازیوں کے ہتھیار ڈالنے کا اعلان کرتے ہوئے ٹرومین نے کہا، “ہمیں صرف آدھی فتح حاصل ہوئی ہے۔” انہوں نے امریکیوں کو یاد دلایا کہ اُن کے اڑوس پڑوس میں بہت سے لوگ اپنے شوہروں، بیٹوں اور بھائیوں کی اموات کا سوگ منا رہے ہیں۔ ٹرومین نے امریکی عوام سے “جشن منانے سے گریز کرنے کو کہا تاکہ بحرالکاہل میں درپیش کام (جنگ) پر توجہ مرکوز کی جا سکے۔” یہ باتیں جوڈتھ بی گربر نے Historical Dictionary of the 1940s (1940 کی دہائی کی تاریخی لغت) کے عنوان سے لکھے گئے اپنے مضمون میں لکھیں۔

ٹرومین جنہوں نے اپنے پیشرو فرینکلن ڈی روزویلٹ کے انتقال کے بعد محض چند ہی ہفتے قبل اپنا عہدہ سنبھالا تھا احتیاط سے کام لے رہے تھے کیونکہ جاپان کے ساتھ جنگ ابھی جاری تھی۔

سڑک پر کھڑے فوجیوں کی قطاروں کے درمیان امریکی پرچم میں لپٹے تابوت کو لے جانے والی ایک گھوڑا گاڑی۔ (© AP Images)
15 اپریل 1945 کو مسلح گارڈ آف آنر کے جوان صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کی میت کو نیو یارک کے ہائیڈ پارک میں تدفین کے لیے لے جاتے وقت سلامی دے رہے ہیں۔ (© AP Images)

گربر کہتی ہیں کہ اس کے باوجود بہت سے امریکیوں نے ٹرومین کی گزارش کو نظر انداز کیا۔ اگرچہ منظم انداز سے ترتیب دی جانے والی تقریبات کی تعداد نہ ہونے کے برابر تھی مگر بے ساختہ جشنوں کے لیے لوگ اپنے گھروں سے نکل آئے۔

خوشی اور طمانیت

امریکہ میں نیویارک میں یورپ میں فتح کے دن کا بہت بڑا جشن منایا گیا۔ ٹائمز سکوائر میں لوگوں کا ایک جم غفیر اُمڈ آیا اور ففتھ ایوینیو پر کاغذ کی رنگ برنگی پتیوں کی بارش میں ہزاروں کے حساب سے لوگوں نے مارچ کیا۔

فتح کے سرکاری اعلان سے پہلے ہی نیویارک کے حکام کو علم تھا کیا ہونے والا ہے اور وہ اس کے لیے تیار تھے۔ یورپ میں فتح کے ممکنہ اعلان سے چند دن قبل روزنامہ نیویارک ٹائمز نے اپنے قارئین کو بتایا کہ 15,293 پولیس افسر ڈیوٹی پر موجود ہوں گے تاکہ “یہ یقینی بنایا جا سکے کہ جشن منانے والے عوام ہلے گلے کی معقول اور مناسب حدود میں رہیں۔”

شہر کے ایک چوک میں لوگوں کا ایک بہت بڑا ہجوم۔ (© Tom Fitzsimmons/AP Images)
جرمنی کے ہتھیار ڈالنے کی خبر پر لوگ نیویارک کے ٹائمز سکوائر میں جشن منا رہے ہیں۔ (© Tom Fitzsimmons/AP Images)

یہ جشن صرف نیویارک سٹی کے مین ہیٹن کے علاقے میں ہی نہیں منایا گیا۔ بلکہ بروکلین، کوئینز، اور برونکس میں ہر ایک “بورو ہال” یعنی ٹاؤن ہال میں دعائیہ اور شکرانے کی عبادات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سابقہ فوجیوں کی تنظیموں سمیت، پروٹسٹنٹ، کیتھولک اور یہودی مذہبی رہنما بھی اِن میں شریک ہوئے۔ نیویارک ٹائمز نے خبر دی کہ گرجا گھروں اور سائنا گوگوں کے علاوہ بڑے بڑے کاروباری اداروں میں بھی خصوصی عبادات منعقد کی گئیں۔

گربر کے مطابق فتح کے دیگر بڑے جشن سان فرانسسکو اور بالٹی مور کے شہروں میں اور ریاست ہوائی میں بھی منائے گئے جن میں مارچ کرتے ہوئے بینڈ اور پریڈ کی شکل میں فلوٹ شامل تھے۔

ممزل پر نظر

اسی اثنا میں ٹرومین کے مشورے پر عمل کرتے ہوئے، بیشتر امریکی شہروں نے یورپ میں فتح کا دن خاموشی سے منایا۔ امریکہ کے مشرقی ساحل سے مغربی ساحل تک امریکی عبادت کے لیے عبادت گاہوں میں جمع ہوئے۔

شکاگو ٹریبیون نے لکھا کہ شکاگو میں گھرجا گھروں نے خصوصی عبادات کا اہتمام کیا۔ حکومت اور مزدوروں کے لیڈروں نے کارکنوں کو اپنے اپنے کام جاری رکھنے کا کہا اور شراب بیچنے والے سٹور 24 گھنٹے تک بند رہے۔

نیوز ویک کے مطابق، نیو اورلینز میں “جشن میں دیوانہ پن” نہیں تھا اور اسی قسم کی خاموشی ڈیلاس، بوسٹن اور ڈینور میں بھی دیکھنے میں آئی۔ اٹلانٹا میں ماحول “افسردہ، مفکرانہ” تھا جبکہ لاس اینجلیس کے میئر نے اعلان کیا: “یہ کوئی تہوار نہیں ہے۔”

ورجینیا میں فورٹ مائیر میں “تھرڈ سروس کمانڈ” کے ہیڈ کوارٹر میں میجر جنرل فلپ ہیز نے “بحرالکاہل کی جنگ جیتنے کے کام کے لیے اپنے آپ کو ایک بار پھر وقف کرنے” کا کہا۔

کرسچیئن سائنس مانیٹر کے نامہ نگار رچرڈ ایل سٹراؤٹ نے لکھا کہ ملک کے دارالحکومت میں “اگر الفاظ میں بیان کیا جائے تو کم و بیش گہری اور زبردست خوشی پائی جاتی ہے،” مگر “جاپان سے نمٹنا ابھی باقی ہے۔” مزید برآں، “مسٹر ٹرومین نے ‘جب تک جنگ جیت نہیں لی جاتی’ کوششیں تیز تر کرنے کا کہا ہے۔'”

ہاتھوں میں کاغذ پکڑے صدر ٹرومین مائکروفون کے سامنے بیٹھے ہیں۔ (© AP Images)
8 مئی 1945 کو وائٹ ہاؤس سے ٹرومین نے اعلان کیا کہ اتحادی، جرمنوں سے غیرمشروط طور پر ہتھیار ڈلوانے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ (© AP Images)

اتفاق سے یورپ میں فتح کا دن اور ٹرومین کی اکسٹھویں سالگرہ ایک ہی دن پڑے۔ گو کہ نئے صدر نے امریکیوں پر اپنی خوشی کو اُس وقت تک متوازن رکھنے پر زور دیا جب تک جنگ کا مکمل طور پر خاتمہ نہیں ہو جاتا، تاہم انہوں نے اخباری نمائندوں کو یہ ضرور بتایا کہ یہ اُن کی زندگی کی بہترین سالگرہ ہے۔ یاد رہے کہ تین ماہ بعد جب اگست کے وسط میں جاپانیوں نے ہتھیار ڈالے تو تب اس جنگ کا باضابطہ خاتمہ ہوا۔