People photographing airplane emerging from behind red curtain (© China Daily/Reuters)
چین کی طیارہ سازی کی سرکاری کمپنی نے 2015ء میں اپنے پہلے مسافربردار طیارے کا افتتاح بڑے زور شور سے کیا۔ (© China Daily/Reuters)

چین میں بنائے گئے پہلے مسافر بردار طیاریے کی 2017 میں پہلی پرواز ہوابازی کی دنیا میں میں پہلا مقام حاصل کرنے کے چینی ہدف کی جانب اہم قدم کی نمائندگی کرتی ہے۔۔

President Trump with group of people (© Evan Vucci/AP Images)
چین پر محصولات عائد کرنے کے میمو پر دستخط کرنے کے بعد صدر ٹرمپ اپنا پین لاک ہیڈ مارٹن کی سی ای او مارلین ہیوسن کو دے رہے ہیں۔ (© Evan Vucci/AP Images)

مگر امریکی تجارتی نمائندے کی حالیہ تحقیق کے مطابق چین نے ‘سی 919 ‘ نامی یہ مسافر جہاز بنانے کے لیے درکار ٹیکنالوجی اور فنی جانکاری کے حصول کے لیے مشتبہ  طریقے اختیار کیے ہیں۔

اس معاملے میں اور اسی طرح کے دیگر معاملات میں چین کا طرزِ عمل ہی مارچ میں صدر ٹرمپ کی جانب سے  مخصوص چینی  درآمدات پر محصولات عائد کرنے کی سفارش کا باعث بنا۔

رواں سال کے آغاز میں لاک ہیڈ مارٹن کارپوریشن کی صدر، میریلین اے ہیوسن نے وائٹ ہاؤس میں صدر ٹرمپ کی موجودگی میں کہا کہ ٹرمپ انتظامیہ  ایسے معاملے سے نمٹ رہی ہے جو فضائیات اور دفاعی صنعتوں کے لیے خاص اہمیت رکھتا ہے اور وہ ہے ہماری املاک دانش کا تحفظ ۔ ان کا کہنا تھا کہ املاک دانش ہماری کمپنیوں کی رگِ جاں ہے اور اس کی چوری امریکی صنعت کاروں کے لیے ایک سنگین خطرہ ہے۔

اعلٰی منصوبے

چین ہوائی جہازوں اور ہوائی کمپنیوں کے مسافروں کی سب سے بڑی مارکیٹ ہے۔ دو غیرملکی طیارہ ساز کمپنیاں یعنی امریکی کمپنی ‘بوئنگ’ اور یورپی کمپنی ‘یورپین ایئربس’ اپنے تقریباً تمام جہاز چین میں بناتی ہیں۔

اس صورتحال میں تبدیلی لانے کے لیے چینی حکومت نے 2008 میں ‘کمرشل ایئرکرافٹ کارپوریشن’ کے نام سےا یک کمپنی بنائی۔ یہ ریاستی ملکیتی ادارہ ہے جو’ سی 919 ‘جہاز بنائے گا۔

امریکہ اور دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے ادارے چین میں ہوابازی کی بہت بڑی مارکیٹ میں آنے کے خواہش مند تھے مگر جلد ہی انہیں اندازہ ہو گیا کہ چین نے’ سی 919 ‘ کی تیاری کے لیے اس شعبے میں کڑی شرائط عائد کر دی ہیں جنہیں بہت سے لوگ غیرقانونی بھی قرار دیتے ہیں۔

Two images showing people working with simulated aircraft fuselage (© VCG/VCG/Getty Images)
سی 919 طیارے پر ہوا کے بہاوً پر تیانجن یونیورسٹی کی ریسرچ ٹیم کے اراکین کام کر رہے ہیں۔ (© VCG/VCG/Getty Images)

2016 میں امریکی صدارتی الیکشن سے قبل ٹرمپ کی انتخابی مہم میں مشیر کی حیثیت سے کام کرنے والے تجارتی ماہر، ایلن ٹونلسن کا کہنا ہے، “سازوسامان فراہم کرنے والے غیرملکی اداروں کے حوالے سے چینی طرزعمل یہ ہے کہ انہیں اس حد تک ہی استعمال کیا جائے جتنا چین کی اپنی صنعت کی تیاری کے لیے ضروری ہو۔ اس سلسلے میں اعانتی رقومات سے لے کر املاکِ دانش کی چوری اور استحصال سمیت بہت سی پالیسیاں اختیار کی گئی ہیں۔”

خاص طور پر چین نے کمپنیوں پر دباؤ ڈالا کہ وہ چین میں کاروبار کے لیے اپنی ٹیکنالوجی اس کے حوالے کریں۔ اس عمل کو ‘ٹیکنالوجی کی منتقلی’ بھی کہا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر چین کی ‘کمرشل ایئرکرافٹ کارپوریشن’ نے:

  • غیرملکی صنعت کاروں سے اصرار کیا کہ وہ چینی صنعتی کاروں کے ساتھ مشترکہ کاروبار کریں۔
  • سی 919 کے لیے سازوسامان کی فراہمی کی بولی دینے والی کمپنیوں سے کہا کہ اگر وہ مقامی سطح پر اشیا تیار کریں تو انہیں بڑی بڑی کامیابیں ملیں گیں۔
  • سازوسامان فراہم کرنے والے 16عالمی اداروں کو ٹیکنالوجی کی تیاری کے لیے مقامی چینی کمپنیوں کے ساتھ شراکت پر مجبور کیا۔
Airplane being built in large factory (© Aly Song/Reuters)
شنگھائی کے ایک پلانٹ میں کارکن چین میں بنائے جائے والے ایک طیارے پر کام کر رہے ہیں۔ (© Aly Song/Reuters)

اس کا حتمی نتیجہ یہ نکلا کہ چینی کاروباری منتظمین اور ملازمین  امریکی اور دوسرے غیرملکی شراکت داروں کی ٹیکنالوجیاں استعمال کرنے لگے۔

درحقیقت چین نے 2015 میں ‘کمرشل ایئرکرافٹ کارپوریشن’ کے ایک میڈیا بیان میں تسلیم کیا کہ ‘سی 919 ‘کی تیاری میں شامل 16 مشترکہ کاروبار ٹیکنالوجی کے تبادلے، نفوذ اور اس کے ردعمل کی بدولت چینی فضائی شعبے میں تحقیق و ترقی اور پیداوار کے مجموعی معیار میں اضافے کا باعث بنے۔

امریکی تجارتی نمائندے رابرٹ لائٹ ہائزر نے کہا ہے کہ چین کی جانب سے غیرمنصفانہ تجارتی عوامل امریکہ اور دوسرے ممالک کے لیے سنگین مسئلہ ہیں۔ انہوں نے کہا، “امریکہ چین کے غیرمنصفانہ اور منڈی کے لیے بگاڑ کا باعث بننے والے طرزعمل سے نمٹنے کے لیے تمام دستیاب ذرائع سے کام لے گا۔”